سورة الفرقان - آیت 72

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور رحمن کے نیک بندے وہ ہیں جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کبھی بے ہودہ (مجالس) کے پاس گزرتے ہیں تو کریمانہ انداز میں گزرجاتے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : ” عباد الرّحمن“ کے اوصاف کا مزید تذکرہ۔ ” عباد الرّحمن“ اس قدر حق گو اور کردار کے سچے ہوتے ہیں کہ جب انھیں کسی معاملہ میں گواہی دینا ہو تو وہ کبھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ ان کا واسطہ کسی بے مقصد یا بے ہودہ بات یا کام سے پڑے تو یہ بڑے وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ زُوْرکا معنٰی : زُوْرکا معنی ہے جھوٹ، باطل، اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، گانے بجانے کی مجالس۔ لغو کا معنٰی بے ہودہ۔ بے مقصد کام یا گفتگو لغو میں جھوٹ بھی شامل ہے جس کی تشریح اوپر کی جا چکی ہے اور اس کے ساتھ تمام فضول، لا یعنی اور بے فائدہ باتیں اور کام بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اللہ کے بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس طرح کی چیزیں دیکھنے، سننے یا ان میں حصہ نہیں لیتے۔ اگر ان کے راستے میں ایسی چیز آجائے تو نگاہ ڈالے بغیر اس سے اس طرح گزر جاتے ہیں جس طرح ایک نفیس آدمی گندگی کے ڈھیر سے گزر جاتا ہے۔ کیونکہ گندگی سے انسان کو طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے قریب کھڑا ہونا تو درکنار آدمی ارادتاً اسے دیکھنا بھی گورا نہیں کرتا۔ یہی کیفیّت مومن کی ہوتی ہے۔ وہ برے کام اور بری بات سے کراہت محسوس کرتا ہے اگر اس سے واسطہ پڑجائے تو وہ مکمل کراہت کے ساتھ اس سے گزر جاتا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُئِلَ النَّبِیُّ () عَنْ الْکَبَائِرِ قَالَ الإِْشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَجُلاَ شَتَمَ أَبَا بَکْرٍ وَالنَّبِیُّ () جَالِسٌ فَجَعَلَ النَّبِیُّ () یَعْجَبُ وَیَتَبَسَّمُ فَلَمَّا أَکْثَرَ رَدَّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ فَغَضِبَ النَّبِی () وَقَامَ فَلَحِقَہُ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ کَانَ یَشْتُمُنِی وَأَنْتَ جَالِسٌ فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ غَضِبْتَ وَقُمْتَ قَالَ إِنَّہُ کَانَ مَعَکَ مَلَکٌ یَرُدُّ عَنْکَ فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ وَقَعَ الشَّیْطَانُ فَلَمْ أَکُنْ لأَقْعُدَ مَعَ الشَّیْطَانِ) [ رواہ احمد : مسند ابی ہریرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بے شک ایک آدمی نے حضرت ابوبکر کو گالیاں دیں۔ ان کے قریب نبی (ﷺ) تشریف فرما تھے نبی (ﷺ) اس کی دیدہ دلیری پر تعجب کرتے ہوئے تبسم فرما رہے تھے جب اس کی گالیوں کا سلسلہ بڑھ گیا تو حضرت ابوبکر نے بھی جواب دینا شروع کیا نبی (ﷺ) اس بات پر ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابوبکر (رض) نے آپ کے پیچھے جا کر عرض کی اے اللہ کے رسول جب مجھے گالیاں دے رہا تھا آپ تشریف فرما رہے میں نے جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ آئے۔ آپ نے فرمایا آپ کی طرف سے فرشتہ اس کی گالیوں کا جواب دے رہا تھا۔ جب آپ نے جواب دیا تو شیطان آگیا میں شیطان کے لیے بیٹھنے والا نہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول یعنی لا حاصل باتوں کو چھوڑ دے۔“ مسائل: 1۔ ” عباد الرّحمن“ کبھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ 2۔ عباد الرّحمن لغویات کو پسند نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن: لغویات اور ان سے بچنے کا حکم : 1۔ اللہ کے بندے لغو باتیں سنتے ہیں تو ان سے اعراض کرتے ہیں۔ (القصص :55) 2۔ مومن لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (المومنون :3) 3۔ اللہ کے بندے جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور لغو باتوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ (الفرقان :72) 4۔ جنت میں لغو باتوں اور بے ہودہ گفتگو کا شائبہ تک نہیں ہوگا۔ (الواقعہ :25)