وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ برے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کے وبال سے دوچار ہوگا
فہم القرآن: (آیت 68 سے 69) ربط کلام : الرّحمن کے بندوں کے مزید اوصاف۔ الرّحمن کے بندے کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو اِلٰہ نہیں سمجھتے۔ الٰہ کا معنی ہے۔ جس کی عبادت کی جائے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے۔ عبادت کی تین اقسام ہیں جن کا ہر نمازی تشہد میں بیٹھ کر اقرار کرتا ہے : (اَلتَّحْیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیْبَاتُ) [ رواہ البخاری : باب التشھد فی الاخرۃ] قولی، مالی اور بدنی عبادات اللہ کے لیے ہے۔ انسان کو حکم ہے کہ وہ نہ ” اللہ“ کے سوا کسی کی عبادت کرے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک بنائے وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ جس سے انسان کے تمام نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ شرک سے نہ صرف نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں بلکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا مجرم قرار پاتا ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا سب سے پہلا اور بڑا مقصد یہ تھا اور ہے کہ وہ لوگوں کو شرک سے روکیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلائیں۔ (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ أَوْصَانِی خَلِیلِی (ﷺ) أَنْ لاَ تُشْرِکْ باللَّہِ شَیْئًا وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ وَلاَ تَتْرُکْ صَلاَۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ وَلاَ تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب الصَّبْرِ عَلَی الْبَلاَءِ ] ” حضرت ابی درداء (رض) بیان کرتے ہیں مجھے میرے خلیل (ﷺ) نے وصیت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کر شریک نہ ٹھہراؤ اگرچہ تیرے ٹکڑے کر دئیے جائیں یاتجھے جلادیا جائے۔ فرض نماز کو جان بوجھ کر نہیں چھوڑنا۔ جس نے جان بوجھ کر نماز کو ترک کیا۔ وہ اللہ کے ذمہ سے بری ہوگیا اور شراب نہ پینا کیونکہ یہ برائی کی چابی ہے۔“ عباد الرحمن کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے : اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کی جان اس قدر عزیز اور محترم ہے کہ اس کا ارشاد ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک جان کی حفاظت کی اس نے تمام لوگوں کی حفاظت کی۔ (المائدۃ:32) یہاں قتل ناحق سے روکا گیا ہے کیونکہ چار وجوہات کی بنا پر کسی انسان کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ 1۔ قتل کے بدلے قتل کرنا۔ 2۔ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا۔ 3 مرتد کو قتل کرنا۔ 4۔ اسلامی حکومت کی بغاوت کرنے والا بھی واجب القتل ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) أَوَّلُ مَایُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ فِی الدِّمَاءِ) [ رواہ البخاری : کتاب الدیات ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔“ عباد الرحمن زنا کا ارتکاب نہیں کرتے : اس آیت میں عباد الرّحمن کے شخصی کردار کے حوالہ سے ان کی یہ خوبی بیان کی گئی ہے کہ وہ زنا کار نہیں ہوتے۔ جس نے زنا کا ارتکاب کیا وہ بھاری گناہ میں ملّوث ہوا۔ زنا کا عمل بظاہر دو افراد پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس کے منفی اور برے اثرات سے دو خاندان بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ فعل صرف اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہی نہیں بلکہ اس میں عام طور پر مال بھی ضائع ہوتا ہے جو شخص ایک مرتبہ زنا کرتا ہے۔ حیا کا پردہ چاک ہونے کی بنا پر دوبارہ بدکاری کرنے سے نہیں چوکتا۔ اس لیے قرآن مجید نے زنا کرنا تو درکنار اس کے لوازمات کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔ (بنی اسرائیل :32) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور زنا میں ملوث ہونا بالخصوص یہ تین گناہ ایسے ہیں جن کے اثرات دوسرے لوگوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ان گناہوں کے مرتکب شخص کو دو گنا سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس شخص کو اپنے گناہ کی سزابھی ملے گی اور اس کی وجہ سے جو لوگ ان گناہوں میں ملوث ہونگے ان کے گناہوں کی سزا بھی اس شخص کو ملے گی۔ یہ لوگ جہنم میں ذلیل ہوتے رہیں گے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ ....] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک کونسا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔“ مسائل: 1۔ عباد الرّحمن اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں بناتے۔ 2۔ عباد الرّحمن کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے۔ 3۔ عباد الرّحمن زنا کا ارتکاب نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرنے کا گناہ : 1۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو پکارنے والاذلیل ورسوا ہوگا۔ (بنی اسرائیل :22) 2۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے والا عذاب میں مبتلا ہوگا۔ (الشعراء :213) 3۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو پکارنے والاجہنم میں پھینک دیا جائیگا۔ (بنی اسرائیل :39) 4۔ غیر اللہ کو پکارنے والافلاح نہیں پائیگا۔ (المومنون :117) 5۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے پر جنت حرام، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (المائدۃ:72) 6۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج :31) 7۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء :48)