وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اور اگر تم سفر میں ہو اور (ایسی حالت ہو کہ باقاعدہ لکھا پڑھی کرنے کے لیے) کوئی کاتب نہ ملے، تو اس صورت میں ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز گرو رکھ کر اس کا قبضہ (قرض دینے والے کو) دے دیا جائے۔ پھر اگر ایسا ہو کہ تم میں سے ایک آدمی دوسرے کا اعتبار کرے، تو جس کا اعتبار کیا گیا ہے (یعنی جس کا اعتبار کرکے گرو کی چیز اس کی امانت میں دے دی گئی ہے) وہ (قرض کی رقم لے کر مقروض کی) امانت واپس کردے اور (اس بارے میں) اپنے پروردگار (کی پوچھ گچھ) سے بے خوف نہ ہو۔ اور دیکھو، ایسا نہ کرو کہ گواہی چھپاؤ (اور کسی کے خوف یا طمع سے حقیقت کا اظہار نہ کرو) جو کوئی گواہی چھپائے گا، وہ اپنے دل میں گنہگار ہوگا (اگرچہ بظاہر لوگ اس کے جرم سے واقف نہ ہوں اور اسے بے گناہ سمجھیں) اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ہدایات۔ اگر سفر کے دوران ادھارلینے کی نوبت پیش آئے تو کاتب کی عدم موجودگی اور باہمی اعتماد نہ ہونے کی صورت میں قرض لینے والے کی کوئی چیز گروی رکھی جاسکتی ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتِ اشْتَرٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مِنْ یَھُوْدِیٍّ طَعَامًا بِنَسِیْئَۃٍ وَرَھَنَہٗ دِرْعَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب شراء الإمام الحوائج بنفسھا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک یہودی سے کچھ مدت کے لیے غلہ حاصل کیا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس بطور رہن رکھی۔“ یاد رکھیں کہ ( آپ (ﷺ) کا کسی سے اپنی ذات کیلیے قرض لینا ثابت نہیں۔ بیت المال کمزور ہونے کی وجہ سے آپ غریب مسلمانوں کے لیے قرض لیتے تھے)۔“ جو چیزکسی کے ہاں گروی رکھی جائے اس کا عارضی مالک اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر یہ فائدہ اٹھائے گا تو وہ بھی سود کے زمرے میں سمجھا جائے گا۔ سوائے اس کے کہ اگر کوئی جانور وغیرہ ہو تو اس کا دودھ پینا یا اس پر سواری کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ یہ اس جانور کے چارے کا انتظام کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلرَّھْنُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا وَعَلَی الَّذِیْ یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ النَّفَقَۃُ) [ رواہ البخاری : کتاب الرھن، باب الرھن مرکوب ومحلوب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد ہے گروی چیز پر خرچ کرنے کی وجہ سے سواری کی جاسکتی ہے جب اسے گروی رکھا جائے اور دودھ والے جانور کا دودھ جانور کو چارہ کھلانے کی وجہ سے پیا جاسکتا ہے۔ جب اس قسم کا جانور گروی رکھاجائے تو سواری کرنے یا دودھ پینے والے پر اسے چارہ کھلانا ہے۔“ سفر سیگھر پہنچنے اور معاملے کی میعاد پوری ہوجانے کے بعد یہ گروی شدہ چیز مالک کو صحیح سالم واپس لوٹانا ہوگی۔ آخر میں پھر حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہووہی تمہارا پالنہار اور مالک ہے۔ لہٰذا گواہی کو ہرگز نہ چھپایا جائے۔ جو شخص شہادت کو چھپائے گا یقینًا اس کا دل گناہ سے آلودہ ہوچکا ہے۔ گویا کہ وہ گندے دل کا مالک ہے اور ایسے دل والے سے ہر گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ گواہی چھپانے والے کے لیے اس لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ اس کے شہادت چھپانے کی وجہ سے حق دار کی حق تلفی کا خطرہ اور نظام عدالت کے ناکام ہوجانے کا انتہائی اندیشہ ہے کیونکہ عدالت شرعی ہو یا غیر شرعی اس کا دارو مدار بالآخر شہادت پر ہی قائم ہے۔ شہادت چھپانے والے نے گویا کہ نظام عدل کی بنیاد ہی اکھاڑ ڈالی ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ جو بھی وہ حرکت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی واقف ہے۔ مسائل :1۔ حالت سفر میں کاتب نہ ملنے کی صورت میں کوئی چیز گروی رکھی جاسکتی ہے۔ 2۔ مدّت مکمل ہونے کے بعد امانت واپس لوٹانا لازم ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے کو شہادت نہیں چھپانی چاہیے۔ 4۔ شہادت چھپانے والے کا دل گنہگار ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن :سچی گواہی : 1۔ سچی گواہی دینے کا حکم۔ (المائدۃ:8) 2۔ سچی گواہی چھپانے کا گناہ۔ (البقرۃ:283) 3۔ گواہی چھپانے والے ظالم ہیں۔ (البقرۃ:140) 4۔ جھوٹی گواہی سے بچنے والوں کی تعریف۔ (الفرقان :72) 5۔ گواہی پر قائم رہنے والوں کی جنت میں تکریم ہوگی۔ (المعارج :33)