وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور اگر ایسا ہو کہ ایک مقروض تنگ دست ہے (اور فوراً قرض ادا نہیں کرسکتا) تو چاہیے کہ اسے فراخی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے۔ اور اگر تم سمجھ رکھتے ہو، تو تمہارے لیے بہتری کی بات تو یہ ہے کہ (ایسے تنگ دست بھائی کو) اس کا قرض بطور خیرات بخش دو
فہم القرآن : (آیت 280 سے 281) ربط کلام : اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ضرورت مند پر صدقہ کیا جائے یاقرض حسنہ کے ساتھ اس سے تعاون کیا جائے اس لیے سود کی حرمت ومذّمت کرنے کے بعد تجارت کے مسائل بیان ہورہے ہیں۔ قرض حسنہ کے بارے میں حکم ہے کہ اگر مقروض کوشش کے باوجود قرض کی ادائیگی کا اہتمام نہ کرسکے تو اسے مہلت دینا ہوگی۔ اگر قرض معاف ہی کردیا جائے تو یہ صاحب مال کے لیے بہت ہی بہتر ہوگا۔ یہاں فکر آخرت کے حوالے سے سمجھایا جارہا ہے کہ اے مالدارو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو یہ سب کچھ یہیں کا یہیں رہ جائے گا اور بالآخر تم نے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہونا ہے اگر تم قرض معاف کردو یا تنگ دست کو مہلت دو تو دونوں صورتوں میں تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ یہاں کُلُّ نَفْسٍ کا لفظ استعمال فرما کر قرض دہندہ کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر جان بوجھ کر قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی تو یہ اللہ کے ہاں ظلم تصور ہوگا۔ ” حضرت ابو قتادہ (رض) کا کسی آدمی پر قرض تھا جب اس کے پاس قرض لینے جاتے تو وہ آگے پیچھے ہوجاتا۔ ایک دن وہ اس کے گھر گئے تو ایک بچہ نکلا حضرت ابو قتادہ (رض) نے بچے سے اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے کہا وہ گھر میں کھاناکھا رہا ہے انہوں نے آواز دی کہ اے فلاں! باہر آؤ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم یہیں ہو۔ وہ آدمی آیا تو انہوں نے پوچھا کہ تو مجھ سے کیوں غائب ہوجاتا ہے؟ اس نے کہا میں تنگدست ہوں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ ابو قتادہ (رض) نے پوچھا اللہ کی قسم! کیا تو واقعی تنگدست ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ ابو قتادہ (رض) نے روتے ہوئے کہا میں نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے سنا ہے کہ جس شخص نے اپنے قرض دار پر نرمی کی یا اس کا قرض معاف کردیا تو وہ روز قیامت عرش کے سایہ تلے ہوگا۔“ [ مسند احمد : کتاب باقی مسند الأنصار، باب حدیث أبی قتادہ] (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ کَانَ تَاجِرٌ یُدَایِنُ النَّاسَ فَإِذَا رَأٰی مُعْسِرًا قَالَ لِفِتْیَانِہٖ تَجَاوَزُوْا عَنْہُ لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یَتَجَاوَزَ عَنَّا فَتَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب من أنظر معسرا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک تاجر لوگوں سے لین دین کرتا تھا۔ جب وہ کسی تنگدست کو دیکھتا تو اپنے خادموں سے کہتا کہ اسے معاف کردوشاید اللہ ہمیں معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔“ (عَنْ کَعْبٍ (رض) قَالَ تَقَاضَی ابْنَ اَبِیْ حَدْرَدٍ دَیْنًا کَانَ لَہٗ عَلَیْہِ فِی الْمَسْجِدِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُھُمَا حَتّٰی سَمِعَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَھُوَ فِیْ بَیْتِہٖ فَخَرَجَ إِلَیْھِمَا حَتّٰی کَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِہٖ فَنَادٰی یَاکَعْبُ ! قَالَ لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ ضَعْ مِنْ دَیْنِکَ ہٰذَا وَأَوْمَأَ إِلَیْہِ أَیْ الشَّطْرَ قَالَ لَقَدْ فَعَلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ قُمْ فَاقْضِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الصلوۃ، باب التقاضی والملازمۃ فی المسجد] ” حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن ابی حدرد (رض) سے کچھ ادھار لینا تھا۔ میں نے مسجد میں اس کا مطالبہ کیا۔ ہماری آوازیں سن کر رسول کریم( ﷺ) نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹاکرگھر سے نکلتے ہوئے آواز دی اے کعب! میں نے عرض کیا : لبیک یارسول اللہ ! فرمایا : اسے آدھا قرض معاف کردو۔ میں نے آدھا معاف کردیا۔ آپ (ﷺ) نے ابن ابی حدرد کو حکم دیا جاؤ باقی قرض واپس کرو۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلٰی مَلِیٍّ فَلْیَتْبَعْ) [ رواہ البخاری : کتاب الحوالات، باب الحوالۃ وھل یرجع فی الحوالۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : صاحب استطاعت کا قرض واپس کرنے سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ جب مہلت کا مطالبہ کیا جائے تو قرض دار کو اسے مہلت دینی چاہیے۔“ مسائل : 1۔ مقروض کو مہلت دینا یا اسے معاف کردینا بہتر ہے۔ 2۔ ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 4۔ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا ملے گی کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔