لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اگر ایک آدمی اندھاہو، یالنگڑ ہوا یابیمار ہو تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں، اور خود تمہارے لیے بھی کوئی حرج نہیں کہ اپنے گھر سے کھانا کھاؤ یا اسیے گھروں سے کھاؤ جو تمہارے باپ ماں، بھائی، بہن چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ کے گھر ہوں، یا ان لوگوں کے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہوئیں یا دوستوں کے گھر ہوں اور اس میں بھی کوئی گناہ کی بات نہیں کہ تم سب مل کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ (٤٥)۔ پھر جب ایسا ہو کہ تم کسی گھر میں داخل ہوتوچاہیے کہ اپنے لوگوں پر سلام بھیجو ایک دعا جو اللہ کی طرف سے ٹھہرا دی گئی، مبارک اور پاکیزہ۔ اس طرح اللہ اپنے احکام کھول کھول کر بیان کردیتا ہے تاکہ تم سمجھو بوجھو۔
فہم القرآن: ربط کلام : معاشرتی آداب اور مسائل: کا ذکر جاری ہے۔ اسلامی آداب نازل ہونے سے پہلے عرب معاشرے میں یہ رواج تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھر بغیر اجازت کے آتے جاتے اور بلا تکلف کھاتے پیتے تھے۔ قرآن مجید میں جب معاشرتی آداب کے احکام نازل ہوئے تو لوگوں نے محسوس کیا کہ جس طرح ہمارا ایک دوسرے کے گھر بلا اجازت جانا جائز نہیں۔ اسی طرح ہم اپنے عزیزو اقرباء کے گھر سے کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ اس خدشہ کو دور کرنے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے یہ فرمان نازل ہوا کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اندھے، لنگڑے، مریض اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤ پیؤ۔ خاص کر اپنے والدین، اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں، اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموؤں، اپنی خالاؤں، اپنے دوستوں اور بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموؤں، اپنی خالاؤں، اپنے دوستوں اور جن گھروں کی چابیاں تمہارے پاس ہیں ان میں بیٹھ کر کھانے پینے سے تم پر کوئی پابندی نہیں۔ تمہیں اس بات کی بھی اجازت ہے کہ تم اکٹھے ہو کر کھاؤ یا الگ الگ بیٹھ کر کھاؤ۔ جب اپنے گھروں میں جاؤ تو سلام کیا کرو۔ یہ تمہارے رب کے ہاں بابرکت اور اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔ ان رشتہ داروں کے گھروں میں کھانے پینے کا یہ مطلب نہیں کہ جو عورتیں تمہارے لیے غیر محرم ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا شروع کر دو۔ اس فرمان کا فقط یہ معنٰی ہے کہ جو محرم خواتین اور مرد اکٹھے ہو کر کھانا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں یہ وضاحت اس لیے کردی گئی کہ اس زمانے میں یہودی مل بیٹھ کر کھانے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ مسائل: 1۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا ضروری ہے۔ 2۔ گھروں میں داخل ہوتے ہوئے اہل خانہ کو سلام کہنا چاہیے۔