لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
حیرات تو ان حاجت مندوں کا حق ہے جو (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہوکر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کام کے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (دنیا کے کام دھندوں سے الگ ہو کر) اللہ کی راہ میں گھر کر بیٹھ رہے ہیں (یعنی صرف اسی کا مکے ہو رہے ہیں) انہیں یہ طاقت نہیں کہ (معیشت کی ڈھونڈھ میں) نکلیں اور دوڑ دھوپ کریں (پھر باوجود فقر و فاقے کے ان کی خود داری کا یہ حال ہے کہ) ناواقف آدمی دیکھے، تو خیال کرے انہیں کسی طرح کی احتیاج نہیں۔ تم ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حالت جان لے سکتے ہو، لیکن وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال کرنے والے نہیں۔ اور (یاد رکھو) تم جو کچھ بھی نیکی کی راہ میں خرچ کرو گے تو اللہ اس کا علم رکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : پہلے صدقہ کرنے کا حکم تھا اب مستحق حضرات کو پہچاننے کا حکم ہے۔ اس مقام پر خود دار اور پاک باز لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے جو نہ کسی سے سوال کرتے ہیں اور نہ ہی مزدوری کے پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو تعلیم وتعلّم، ترویج اسلام، جہاد فی سبیل اللہ بالفاظ دیگر اپنے آپ کو خدمت اسلام کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ وہ مزدوری کرسکتے ہیں لیکن اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں فریضۂ تبلیغ میں کوتاہی واقع نہ ہوجائے۔ پہلے انفاق کے احکامات میں فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حکم تھا اور اب خود دار مستحق لوگوں کو فی سبیل اللہ کے مقام پر فائز کرتے ہوئے اغنیاء کو خرچ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے انہیں سرزنش کی گئی ہے کہ ایسے مال دار‘ لوگ جاہلوں کا ساکردار رکھتے ہیں۔ جو حاجت مند خود دار لوگوں کو ضرورت مند نہیں سمجھتے۔ اللہ کے راستے میں وقف لوگ اس قدر غیّور، خود دار، شرم وحیا کے پیکر اور بے نیاز ہیں کہ کسی سے سوال کرنا ان کے ضمیر کے خلاف ہے۔ یہاں چمٹ کر سوال کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ اس کے سوا کسی اور انداز میں سوال کرنا اپنے لیے روا رکھتے ہیں بلکہ اس انداز کلام سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ کسی حال میں بھی دوسرے کے سامنے دست سوال دراز کرنے کے قائل نہیں۔ لہٰذا مخیر حضرات کا فرض ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ ان کی ضرورتوں کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں گو ان کے ہاتھ اور زبانیں بند ہیں لیکن ان کے چہرے‘ لباس اور بودو باش عسرت کے ترجمان ہیں کیونکہ اگر یہ لوگ اپنے آپ کو تبلیغ دین کے لیے وقف نہ کریں تو دینی درسگاہیں بانجھ، مساجد ائمہ کرام سے خالی اور دین کا نسل درنسل چلنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ یہاں یہ بات بھی نمایاں ہوتی ہے کہ دین کے نام پر جائیدادیں بنانا اور تبلیغ کو پیشہ کے طور پر اختیار کرنا کسی لحاظ سے بھی مناسب نہیں۔ قرآن کا منشاء یہ ہے کہ دین کا کام کرنے والے لوگ پوری بے نیازی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھیں۔ مخیر حضرات کا فرض ہے کہ وہ از خود ان کی ضروریات کا خیال رکھیں ان کے مقام ومرتبہ کو پیش نظر رکھ کر ان کے ساتھ فی سبیل اللہ تعاون کرتے رہیں۔ جن پاک باز لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی وہ اصحاب صفّہ (رض) کا مقدس گروہ تھا جن کو رسول کریم (ﷺ) حسب ضرورت تبلیغ اور دوسرے دینی کاموں کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ جونہی یہ لوگ اس فرض سے فارغ ہوتے تو مسجد نبوی کے متصل ایک چبوترے پر اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے۔ اصحابِ صُفَّہ (رض) کی خود داری : ان میں سے ایک عظیم ہستی جن کا اسم گرامی حدیث کی مقدس دستاویزات میں بڑی کثرت کے ساتھ آیا ہے وہ جناب ابوہریرہ (رض) ہیں جو اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں : (إِنَّکُمْ تَزْعُمُوْنَ أَنَّ أَبَاھُرَیْرَۃَ یُکْثِرُ الْحَدِیْثَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) وَاللّٰہُ الْمَوْعِدُ إِنِّیْ کُنْتُ امْرَأً مِسْکِیْنًا أَلْزَمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) عَلٰی مِلْءِ بَطْنِیْ وَکَانَ الْمُھَاجِرُوْنَ یَشْغَلُھُمُ الصَّفْقُ بالْأَسْوَاقِ وَکَانَتِ الْأَنْصَارُ یَشْغَلُھُمُ الْقِیَامُ عَلٰی أَمْوَالِھِمْ فَشَھِدْتُ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) ذَاتَ یَوْمٍ وَقَالَ مَنْ یَّبْسُطُ رِدَاءَ ہٗ حَتّٰی أَقْضِیَ مَقَالَتِیْ ثُمَّ یَقْبِضُہٗ فَلَنْ یَّنْسٰی شَیْئًا سَمِعَہٗ مِنِّیْ فَبَسَطْتُّ بُرْدَۃًکَانَتْ عَلَیَّ فَوَ الَّذِیْ بَعَثَہٗ بالْحَقِّ مَا نَسِیْتُ شَیئا سَمِعْتُہٗ مِنْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الإعتصام، باب الحجۃ علی من قال إن أحکام النبی] ” اے لوگو! تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) کی حدیثیں بہت بیان کرتا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں مسکین آدمی تھا پیٹ بھرنے کی خاطر رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ چمٹا رہتا تھا۔ مہاجرین منڈی میں کاروبار کرنے میں مصروف رہتے اور انصار اپنے مال کو سنبھالنے میں مشغول ہوتے۔ ایک دن میں رسول اللہ (ﷺ ) کے پاس حاضرہوا تو آپ نے فرمایا : کون اپنی چادر پھیلاتا ہے یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کرلوں؟ پھر وہ اپنی چادر کو لپیٹ لے۔ وہ جو کچھ بھی مجھ سے سنے گا کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنی چادر بچھائی جو میں نے اپنے اوپر لے رکھی تھی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے جو کچھ بھی آپ سے سنا کبھی نہیں بھولا۔“ مسائل : 1۔ صدقات فقراء وغرباء میں تقسیم کرنے چاہییں۔ 2۔ اللہ کے راستے میں وقف لوگوں کی از خود خدمت کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ کے کام میں گھرے ہوئے خود دار مسکین لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔ 4۔ انسان جو کچھ بھی خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔