سورة المؤمنون - آیت 109

إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہمارے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہتا تھا خدایا ہم ایمان لے آئے۔ پس ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، تجھ سے بہتر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 109 سے 111) ربط کلام : رب ذوالجلال کا جہنمیوں کو دوسرا جواب۔ جہنمیوں کو جہنم میں دھتکارتے وقت اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرمائیں گے کہ کیا تم وہ لوگ نہیں ہو؟ جنہوں نے میرے بندوں کو اس وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ مجھ پر ایمان رکھتے تھے، مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے اور مجھ سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اے رب تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ انہیں مذاق کرنے کی وجہ سے تم نے میری نصیحت کو فراموش کردیا۔ اپنے بندوں کے ایمان، صبر اور دعاؤں کی وجہ سے انہیں بہترین اجر سے سرفراز کرتا ہوں۔ ان کے مقابلے میں آج تمہاری سزا یہ ہے کہ تم ہمیشہ ہمیش جہنم کی آگ میں جلتے اور چلاّتے رہوگے۔ جنیتوں کا اجر اور جہنمیوں کی سزا : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَأتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا اِنْ شِئْتُمْ ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ﴾) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور پیدا ہوا۔ اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَوْضِعُ سَوْطٍ فِیْ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر (گز بھر) جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے‘ اس سے بہتر ہے۔“ ( عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ اَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ] حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا‘ جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کو ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔ ( وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَا بَیْنَ مَنْکِبَیِ الْکَافِرِ فِیْ النَّارِ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ للرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ ضِرْسُ الْکَافِرِ مِثْلُ اُحُدٍ وَغِلْظُ جِلْدِہٖ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثٍ) [ رواہ مسلم : باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جہنم میں کافر کے کندھوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہوگا کہ تیز رفتارسوار کے لیے تین دن کی مسافت ہوگی ایک اور روایت میں ہے کہ دوزخ میں کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی اور اس کے جسم کی موٹائی تین رات کی مسافت کے برابر ہوگی۔“ مسائل: 1۔ نیک لوگوں کو مذاق کرنے کی سزا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور اس کارحم مانگنا چاہیے۔ 3۔ صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن پوری پوری جزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن: صبر کرنے کا صلہ : 1۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الشوریٰ:43) 2۔ نبی (ﷺ) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج :5) 3۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ :153) 4۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات :5) 5۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون :111) 6۔ صبر کرنے والوں کا صلہ جنت ہے۔ (الدھر :12)