لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
(اے پیغمبر) تم پر کچھ اس بات کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ ہدایت قبول ہی کرلیں (تمہاری کام) صرف راہ دکھا دینا ہے، یہ کام اللہ کا ہے کہ جسے چاہے راہ پر لگا دے (پس تم لوگوں سے کہہ دو) جو کچھ بھی تم خیرات کرو گے تو (اس کا فائدہ کچھ مجے نہیں مال جائے گا، اور نہ کسی دوسرے پر اس کا احسان ہوگا) خود اپنے ہی فائدہ کے لیے کروگے۔ اور تمہارا خرچ کرنا اسی غرض کے لیے ہے کہ اللہ کی رضا جوئی کی راہ میں خرچ کرو۔ اور (پھر یہ بات بھی یاد رکھو کہ) جو کچھ تم خیرات کرو گے تو (خدا کا قانون یہ ہے کہ) اس کا بدلہ پوری طرح تمہیں دے دے گا، تمہاری حق تلفی نہ ہوگی
فہم القرآن : ربط کلام : جس طرح حکمت و دانائی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اسی طرح ہدایت پانا اور صدقہ کی توفیق ملنا بھی اسی کا کرم ہے۔ اے رسول کریم (ﷺ) ! تمہاری ذمہ داری لوگوں کو سمجھانا ہے۔ ہدایت سے ہمکنار کرنا آپکا اختیار نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور حکمت ہے جسے چاہے ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ صدقات کے بیان میں یہ جملہ اس لیے لایا گیا ہے کہ ابتدائی دور میں بے شمار ایسے صحابہ کرام (رض) تھے جن کی کافروں اور مشرکوں کے ساتھ قریبی رشتہ داریاں تھیں۔ مال دار صحابہ ایمان لانے کے بعد بھی کفارکے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے ایمان کی بنیاد پر ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جس پر یہ فرمان نازل ہوا جس میں وضاحت فرمائی کہ جو کچھ بھی تم اللہ کی رضا کے لیے غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر عنایت کیا جائے گا۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہ (رض) کی بہن حضرت اسماء (رض) کے ساتھ پیش آیا ان کی والدہ اپنی بیٹی اسماء (رض) سے تعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ آئی جس پر حضرت اسماء (رض) آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتی ہیں کہ میری والدہ مجھ سے تعاون کی امید رکھتی ہے۔ کیا میں مشرکہ والدہ کے ساتھ تعاون کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا : تمہیں اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الھبۃ وفضلھا، باب الھدیۃ للمشرکین] بعض اہل علم نے یہ تفسیر فرمائی ہے کہ عام صدقہ مستحق کافر اور مشرک کو دیا جاسکتا ہے لیکن زکوٰۃ کافر کو نہیں دینا چاہیے البتہ قربانی کا گوشت مشرک، کافر کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔ صدقہ اور خیرات کی وسعتوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے : (مَامِنْ مُّسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَکَلَ مِنْہُ إِنْسَانٌ أَوْ دَآبَّۃٌ إِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] ” جس مسلمان کے کھیت سے کسی انسان یا جانورنے دانہ کھایا اسے بھی صدقہ کا ثواب ملے گا۔“ (کُلُّ سُلَامٰی عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ یُعِیْنُ الرَّجُلَ فِیْ دَابَّتِہٖ یُحَامِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مَتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَا إِلَی الصَّلٰوۃِ صَدَقَۃٌ وَدَلُّ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” روزانہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے کسی آدمی کو سواری کے لیے سواری دے دینا یا کسی کے سامان کو سواری پر رکھ لینا صدقہ ہے اور اچھی بات کہناصدقہ ہے۔ نماز کے لیے جاتے ہوئے ہرقدم کا بدلہ صدقہ ہے۔ کسی کو راستہ بتلانا صدقہ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) بَیْنَمَا کَلْبٌ یُطِیْفُ بِرَکِیَّۃٍ کَادَ یَقْتُلُہُ الْعَطْشُ إِذْ رَأَتْہُ بَغِیَّۃٌ مِّنْ بَغَایَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ فَنَزَعَتْ مُوْقَھَا فَسَقَتْہُ فَغُفِرَلَھَا بِہٖ) [رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ ایک کتا کنوئیں کے کنارے چکر لگارہا تھا قریب تھا وہ پیاس سے مر جائے۔ اچانک بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ کر اپنے موزے کے ذریعے اسے پانی پلایا۔ اس وجہ سے اس عورت کو بخش دیا گیا۔“ مسائل : 1۔ اللہ کے نبی کا کام رہنمائی کرنا ہے کسی کو ہدایت پر گامزن کرنا نہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت سے نوازتا ہے۔ 3۔ صدقہ کرنے میں بہتری ہے۔ 4۔ صدقہ کرنے والے کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ 5۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن : اللہ کی توفیق سے ہی ہدایت ملتی ہے : 1۔ ہدایت پر چلانا انبیاء کی ذمہ داری نہیں۔ (البقرۃ:272) 2۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی شخص ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا۔ (الاعراف :43) 3۔ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ (القصص :56) 4۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے۔ (الکہف :17) 5۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ:142)