سورة المؤمنون - آیت 84

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) ان منکروں سے کہہ دے اچھا اگر تم جاتنے ہو تو بتلاؤ زمین اور وہ تمام مخلوقات جو اس میں ہیں کس کے لیے ہیں؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 84 سے 87) ربط کلام : زمینی اور عقلی حقائق سے قیامت قائم ہونے کا ثبوت۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان سے استفسار فرمائیں کہ جس زمین پر تم رہ رہے ہو اور جو کچھ اس میں ہے وہ کس کی تخلیق اور ملکیت ہے اس کا یہی جواب دیں گے کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اب فرمائیں کیا پھر تم حقیقت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ؟ ان سے پھر استفسار فرمائیں کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ ان کا جواب یہی ہوگا کہ سب کا سب اللہ ہی کا ہے۔ آپ فرمائیں پھر تم اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے کیوں نہیں ڈرتے۔ یہاں اہل مکہ کا عقیدہ بتلایا جا رہا ہے کہ اہل مکہ اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور وہی اس کا مالک ہے۔ اہل مکہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا عرش سات آسمانوں کے اوپر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اس طرح جلوہ افروز ہے جس طرح اس کی شان ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستویٰ ہونے کے بارے میں کسی قسم کی قیل وقال نہیں کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے عرش پر کوئی چیز متمکن نہیں اور نہ ہی اس کے عرش میں کوئی دخیل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قبل از اسلام عربوں کا یہی عقیدہ تھا جس بناء پر وہ کھلے الفاظ میں ان حقائق کا اعتراف کرتے تھے کہ عرش، فرش اور آسمانوں کا ایک ہی رب ہے جس کا نام ” اللہ“ ہے۔ ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ ہم رسول اللہ (ﷺ) سے غیر متعلق چیزوں کے بارے میں سوال کریں۔ ہمیں یہ بات بڑی اچھی لگتی تھی کہ دیہات میں سے کوئی سمجھ دار آدمی آئے اور آپ (ﷺ) سے سوال کرے اور ہم سنیں ایک دن ایک بدوی آیا۔ اس نے کہا اے محمد (ﷺ) ! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اور اس نے یہ بتلایا ہے کہ آپ اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے دیہاتی نے سوال کیا کہ آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ نے۔ اس نے عرض کی زمین کو کس نے پیدا کیا اور اس پر پہاڑوں کو کس نے نصب کیا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ نے۔ اس نے کہا کیا آپ کو اللہ نے مبعوث کیا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ہاں! دیہاتی نے کہا آپ کے قاصد نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہم پر ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا اس نے ٹھیک بتلایا۔ دیہاتی نے کہا کہ اس کا یہ بھی کہنا ہے ہم پر سال میں رمضان کے ایک مہینہ کے روزے فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ اس دیہاتی نے کہا جس ذات نے آپ کو نبی مبعوث فرمایا ہے کیا ان باتوں کا اس نے آپ کو حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس نے کہا آپ کے قاصد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم میں سے صاحب استطاعت پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ پھر وہ واپس پلٹا اور کہنے لگا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا نہ میں ان میں کمی کروں گا اور نہ زیادتی۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔“ [ رواہ مسلم : باب فِی بَیَانِ الإِیمَان باللَّہِ وَشَرَاءِعِ الدِّینِ] مسائل: 1۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم کا رب ہے۔ 3۔ مشرک اللہ تعالیٰ کو رب ماننے کے باوجود اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز نہیں آتے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کے چند دلائل : اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کے بے شمار دلائل ہیں۔ لیکن اختصار کی خاطر چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ 1۔ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ (النساء :87) 2۔ معبود حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء :171) 3۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر :3) 4۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذاریات :57) 5۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمھارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : 51، مریم :36) 6۔ اللہ سب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام :102) 7۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن :62)