سورة المؤمنون - آیت 68

أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر (انہیں کیا ہوگا ہے؟) کیا انہوں نے اس بات پر (یعنی قرآن پر) غور نہیں کیا؟ یا ان کے سامنے کوئی ایسی عجیب بات آگئی ہے جو ان کے اگلے بزرگوں کے سامنے نہیں آئی تھی؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 68 سے 70) ربط کلام : جہنم میں داخل کیے جانے والوں کے دیگر جرائم۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور تباہ ہونے والی اقوام کے انجام سے ڈریں۔ لیکن جہنم میں داخل کیے جانے والوں کا یہ جرم ہوگا کہ وہ قرآن مجید کی آیات پر غور اور اپنے سے پہلی اقوام کے انجام سے عبرت نہیں سیکھتے تھے یہاں سوالیہ انداز میں ان سے چند استفسار کیے گئے ہیں کیا یہ لوگ قرآن مجید کو غور کے قابل نہیں سمجھتے یا جس بات پر تعجب کر رہے ہیں یہ دعوت ان کے آباؤ اجداد کو نہیں پہنچی یا پھر اپنے رسول کو نہیں پہنچانتے ظاہر بات ہے کہ ان باتوں میں ان کی کوئی بات بھی سچ نہ تھی۔ اگر یہ قرآن مجید پر غور کرتے تو ہدایت پاتے کیونکہ اس طرح کی دعوت پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے ذریعے ان کے باپ دادا کو بھی پہنچی تھی۔ جس رسول سے انہوں نے بے اعتنائی کی وہ تو ایک جانی پہچانی مسلمہ شخصیت تھی اور ہیں عرب کے لوگ نبوت سے پہلے ہی آپ (ﷺ) کی دیانت وامانت، شرافت و نجابت، کردار اور اخلاق کے قائل تھے۔ اس کے باوجود کہتے ہیں کہ اسے جنون ہوگیا ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ میں جنون کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا بلکہ اعلان نبوت سے پہلے وہ آپ کی دانشمندی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ اب ان کے الزامات صرف اس لیے ہیں کہ آپ (ﷺ) ان کے پاس حق بات لائے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے آپ (ﷺ) کی دعوت کو ٹھکرایا اور جہنم کا ایندھن بنے۔ جہاں تک سرور دو عالم (ﷺ) کی وفات کے بعد جو لوگ دنیا میں آئے اور آئیں گے ان کے سامنے بھی اہل حق نے سروردو عالم (ﷺ) کی شخصیت، کردار اور دعوت کو اس طرح کھول کر پیش کیا اور کرتے رہیں گے کہ جس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی اور نہ ہوگی لیکن پھر بھی مجرموں نے حق کو ٹھکرایا جس کے سبب وہ جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید پر غور کرنا چاہیے۔ 2۔ پہلے لوگوں کے پاس بھی اسی طرح کی دعوت پہنچی تھی۔ 3۔ سروردو عالم (ﷺ) کی ذات اور دعوت کا انکار کرنے والے ہر دور میں آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: لوگوں کی اکثریت جاہل ہوتی ہے : 1۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیزکو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام :111) 2۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر :57) 3۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :40) 4۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 5۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم :6) 6۔ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ (المائدۃ:103) 7۔ قیامت کا اللہ ہی کو علم ہے لیکن لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔ (الاعراف :187) 8۔ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو نہیں مانتے۔ (النحل :83)