وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
(برخلاف اس کے) جو لوگ اپنا مال (نمود و نمائش کے لیے نہیں، بلکہ) اللہ کی خوشنوی کی طلب میں اپنے دل کے جماؤ کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، تو ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اونچی زمین پر اگایا ہوا باغ۔ اس پر پانی برسا تو دو چند پھل پھول پیدا ہوگئے اور اگر زور سے پانی نہ برسے، تو ہلکی بوندیں بھی اسے شاداب کردینے کے لیے کافی ہیں ! اور یاد رکھو تم جو کچھ بھی کرتے ہو، اللہ کی نظر سے پوشیدہ نہیں
فہم القرآن : (آیت 265 سے 266) ربط کلام : ریا کاری‘ احسان جتلانے اور تکلیف والے صدقہ کے مقابلہ میں لِوَجْہِ اللّٰہِ کیے گئے صدقہ کے ثمرات وانجام۔ یہاں دو مثالوں کے ذریعے دو قسم کا کردار واضح کیا جارہا ہے۔ پہلی مثال میں ایسے سخی کی بات تھی جو کسی کو صدقہ دینے کے بعد احسان جتلاتا اور اذیّت دے کر اپنے صدقے کو اس طرح ضائع کر بیٹھتا ہے جیسے نمود و نمائش کرنے والے کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین نہیں ہوتا جس وجہ سے اس کا اجر ضائع ہوجاتا ہے۔ اس صدقے کی مثال ایک چٹان اور اس پر پڑی ہوئی مٹی سے دی گئی تھی جو بارش کے چند قطروں سے صاف ہوجائے۔ گویا کہ ریا کار اور اس قسم کے آدمی کے صدقے کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ پتھر پر مٹی کے ذرات ہوں تو بارش کے بعد اس پر کچھ نہ کچھ ضرور اگتا ہے۔ ایسے ہی اگر اخلاص کے ساتھ صدقہ کیا جائے تو اس کے مخیّر کے دل اور معاشرہ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح چٹان پر بارش کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے ہی ریا کار کو صدقہ کرنے کا کوئی اجر و ثواب حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے بعد اس صاحب دل اور خوش قسمت انسان کی مثال دی جارہی ہے جو اپنے دل کے اطمینان، روح کی خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہے۔ اس کی مثال اس باغ جیسی ہے جو بلند اور ہموار زمین پر ہوجس پر بارش نہ بھی ہو تو اسے شبنم ہی کفایت کرتی ہے۔ اخلاص نیت کے ساتھ کیے جانے والے صدقہ میں اگر کوئی کمی وکمزوری رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تلافی فرما دے گا۔ کیونکہ صدقہ کرنے والا اس نیت کے ساتھ کر رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی مال تھا جو میں نے اس کے کمزور بندوں پر خرچ کیا ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ ایسا شخص نمود و نمائش، احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے اجتناب کرتا ہے۔ دوسری مثال میں مخیر حضرات کی توجہ اس جانب دلائی جارہی ہے کہ کیا تم میں کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں پر مشتمل ایک بہترین باغ ہو اور اس میں آب پاشی کا خود کار نظام ہو‘ اس باغ کا مالک بوڑھا اور اس کی چھوٹی چھوٹی اولاد ہو اور وہ باغ بھر پور طریقے سے پھل دے رہا ہو۔ اچانک اس باغ کو آگ کا بگولہ خاکستر کر دے۔ بتائیے کہ ایسے سانحہ فاجعہ پر اس بوڑھے مالک کی کیا حالت ہوگی ؟ جو لوگ خرچ کرنے کے بعد شہرت کے طالب اور مسکین کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کا معاملہ باغ کے بوڑھے مالک کی طرح ہوگا جسے بڑھاپے میں ایک ایک پائی کی ضرورت تھی اور بچے کمزور اور کمانے کے لائق نہیں تھے جو بچے اس سانحہ کے وقت بچے اپنے باپ کی کوئی مدد نہ کرسکے جب کہ بوڑھے باپ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے باغ جل رہا تھا۔ بوڑھا اسے بچانے کی کوشش کے باوجود نہ بچا سکا۔ نمود و نمائش اور صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے اور تکلیف دینے والے کو قیامت کے دن ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے کمینے پن کی وجہ سے آج اس کے سامنے اس کی امیدیں ختم ہورہی ہیں۔ جب اسے جہنم کی طرف دھکیلا جارہا ہوگا تو اولاد سمیت کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرسکے گا۔ اس نازک ترین صورت حال کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا کوئی دنیا میں ایسا شخص ہوسکتا ہے جو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ایسا حادثہ پسند کرتا ہو؟ ظاہر ہے کوئی پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے احکامات اس لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے فکر و عمل پر غور کرو۔ مسائل : 1۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والا خسارہ نہیں اٹھاتا۔ 2۔ ریا کاری اور احسان جتلانے سے اعمال غارت ہوجاتے ہیں۔ تفسیربالقرآن : لوجہ اللہ خرچ کرنے کا ثواب : 1۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ: 272) 2۔ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء :114) 3۔ اللہ کی رضا کے متلاشیوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد :22) 4۔ مخلص، مخیرحضرات لوگوں کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر :9)