لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ
(اے پیغمبر) ہم نے ہر امت کے لیے (عبادت کا) ایک طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے جس پر وہ چل رہی ہے، پس لوگوں کو اس معاملہ میں (یعنی اسلام کے طور طریقہ میں) تجھ سے جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں، تو اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو دعوت دے (کہ اصل دین یہی ہے) یقینا تو ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہے۔
فہم القرآن: (آیت 67 سے 69) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے دلائل دے کر اپنی توحید سمجھا دی ہے۔ اس کے باوجود کوئی شخص توحید کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو اس کی مرضی کیونکہ ہر کسی کے لیے گمراہی اور ہدایت کا راستہ متعین ہوچکا ہے۔ یہود و نصاریٰ ہر اس بات پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں جو ان کی شریعت کے خلاف ہے۔ اس پر انھیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ جہاں تک دین کے بنیادی اصولوں کا معاملہ ہے وہ تو ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ لیکن ہر دور کے حالات کے مطابق شریعت یعنی دین کے کچھ اصولوں کی تشریح میں فرق رہا ہے۔ جس کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو دین پر عمل کرنا آسان رہے۔ اسی وجہ سے پہلی شریعتوں کے ساتھ شریعت محمدیہ کا بعض معاملات میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ بعض شریعتوں میں بیک وقت دو بہنوں سے نکاح کرنا جائز تھا لیکن شریعت محمدی میں حرام ہے، پہلے انبیاء پر مال غنیمت حرام تھا، امت محمدی کے لیے جائز قرار پایا، پہلی امتوں کے لوگ صرف اپنے عبادت خانوں میں ہی نماز ادا کرتے ان کے علاوہ کسی اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، لیکن مسلمانوں کے لیے بوقت نماز مسجد میں جانا ممکن نہ ہو جہاں چاہیں نماز ادا کرلیں۔ پہلی شریعتیں بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں تھیں اور شریعت محمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ شریعت محمدیہ کے نزول کے بعد پہلی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ اگر یہود و نصاریٰ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو اے پیغمبر ! ان لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرنے کی بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیجیے اور آپ لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں یقیناً آپ ہی صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ اگر لوگ پھر بھی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتے تو آپ یہ فرما کر ان سے الگ ہوجائیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی اچھی طرح جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ وہی قیامت کے دن تمھارے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ یہاں تک کہ جانوروں کے مابین بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے ایک شریعت مقرر کی تھی۔ 2۔ پہلی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ اب شریعت محمدیہ پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔ 3۔ حقیقت جاننے کے باوجود لوگ حق کے بارے میں جھگڑا کریں تو انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فیصلہ صادر فرمائیں گے : 1۔ اللہ مردوں کو اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام :36) 2۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: 6تا18) 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام :60) 4۔ صبر کا دامن نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ صادر فرما دے۔ (یونس :109) 5۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ:1) 6۔ اللہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ (البقرۃ :113) 7۔ قیامت کے دن آپ کا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل : 124، النساء :141)