سورة الحج - آیت 65

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا تم نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کردی ہیں؟ جہاز کو دیکھو، کس طرح وہ اس کے حکم سے سمندر میں تیرتا چلا جاتا ہے؟ پھر کس طرح اس نے آسمان کو (یعنی فضائے سماوی کے اجرام کو) تھامے رکھا کہ زمین پر گریں نہیں اور گریں تو اس کے حکم سے؟ بلاشبہ اللہ انسان کے لیے بڑی ہی شفقت رکھنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 65 سے 66) ربط کلام : اگر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا ادراک چاہتے ہو تو پھر دریاؤں میں چلنے والی کشتیوں اور آسمان کی بلندیوں پر غور کرو۔ انسان کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے بے شمار چیزوں کو دیکھتا اور ان سے استفادہ کرتا ہے۔ مگر ان کی حقیقت جاننے کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ انسان کی توجہ حقائق کی طرف مبذول کرنے کے لیے قرآن مجید کئی مقامات پر ﴿اَلَمْ تَرَ﴾ کے الفاظ استعمال کرتا ہے کہ اے انسان ! کیا تو دیکھتا اور سوچتا نہیں ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز کو کس طرح پیدا فرمایا ہے ؟ یہاں زمین و آسمان اور سمندر میں چلنے والی کشتیوں کی طرف توجہ دلا کر ارشاد فرمایا ہے کہ یقین کرو کہ اللہ لوگوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت کرنے اور مہربانی فرمانے والا ہے۔ انسان زمین کی طرف غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کب سے اسے اس کے لیے مسخر کر رکھا ہے زمین پانی پر ہونے کے باوجود نہ کہیں سے جھکی اور نہ ہی کہیں سے دھنسی ہے۔ انسان کی خوراک، رہائش اور اس کی زیب و زینت کے لیے کب سے خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہی زمین ہے کہ اس پر حکمرانی کرنے والا انسان جب اس میں دفن کیا جاتا ہے تو چند دنوں کے بعد زمین اسے کھا جاتی ہے۔ سمندر میں چلنے والی کشتیوں پر غور کیا جائے جو پانی ایک سوئی برداشت نہیں کرسکتا وہ ہزاروں ٹن بوجھ اٹھانے والے جہازوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آسمان کی طرف دیکھیں نہ معلوم کتنی مدت سے بغیرسہارے کے کھڑا ہے۔ نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے اور نہ وہ کسی طرف سے جھکا ہے۔ یہ اللہ کے حکم کے مطابق تنا ہوا ہے اور نیچے گرنے کا نام نہیں لیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو زمین جگہ جگہ سے پھٹ جائے، سمندر کا پانی برف بن جائے، آسمان زمین پر دھڑان آگرے۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہے کہ وہ لوگوں کے کفرو شرک اور ہر قسم کی نافرمانی دیکھ کر بھی ہر چیز کو انسان کی خدمت میں لگائے ہوئے ہے لیکن پھر بھی انسان اس کو معبود برحق ماننے کے لیے تیار نہیں۔ انسان کس قدر ظالم ہے اور اللہ تعالیٰ کس قدر مشفق اور مہربان ہے۔ وہی ذات لوگوں کو زندہ کرنے والی ہے۔ پھر وہی لوگوں کو موت سے ہمکنار کرتی ہے۔ پھر وہی سب کو زندہ کرے گی۔ گویا کہ انسان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے قبضے میں انسان نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے مر سکتا ہے۔ اتنے ٹھوس دلائل ہونے کے باوجود انسان اپنے رب کا ناقدردان اور ناشکرا ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور کشتیوں کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک اور دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ 3۔ انسان کی نافرمانی اور ناسپاہی کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت اور مہربانی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انسان کا اپنے رب کے بارے میں رویہّ : 1۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات :6) 2۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے۔ (الزمر :8) 3۔ جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور جب تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ (بنی اسرائیل :83) 4۔ جب انسان کو ہماری طرف سے رحمت ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ (الشوریٰ :48)