وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور پھر (دیکھو) جب ایسا ہوتا تھا کہ ابراہیم نے کہا تھا "اے پروردگار ! مجھے دکھلا دے کس طرح تو مردوں کو زندہ کردے گا؟ اللہ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں؟ عرض کیا ضرور ہے لیکن یہ اس لیے چاہتا ہوں تاکہ میرے دل کو قرار آجائے (یعنی تیری قدرت پر تو یقین و ایمان ہے، لیکن یہ جو مایوس کن حالت دیکھ کر دل دھڑکنے لگتا ہے، تو یہ بات دور ہوجائے)۔ اس پر ارشاد الٰہی ہوا، اچھا یوں کرو کہ پرندوں میں سے چار جانور پکڑ لو اور انہیں اپنے پاس رکھ کر اپنے ساتھ ہلا (سدھا) لو (یعنی اس طرح ان کی تربیت کرو کہ وہ اچھی طرح تم سے مل جائیں پھر ان چاروں میں سے ہر ایک کو (اپنے سے دور) ایک ایک پہاڑ پر بٹھا دو، پھر انہیں بلاؤ۔ وہ (آواز سنتے ہی) تمہاری طرف اڑتے ہوئے چلے آئیں گے ! یاد رکھو اللہ سب پر غالب اور اپنے تمام کاموں میں حکمت رکھنے والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ مردہ کو زندہ کرنے کی ایک اور مثال۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التّکاثر میں انسانی علم کے تین مدارج ذکر فرمائے ہیں۔ علم، علم الیقین اور عین الیقین۔ عین الیقین ایسا علم ہے جو تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوجائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو عین الیقین کے تناظر میں سمجھنا چاہیے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حیات بعد الممات کے بارے میں کبھی بھی تشکیک کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے بارے میں دو ٹوک انداز میں الانعام 57میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے روز سے ہی رشد و ہدایت سے نوازا تھا۔ انبیاء کرام نبوت سے پہلے بھی کفر اور شرک کا ارتکاب نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو ابتداء ہی سے اپنی نگرانی میں رکھتے اور پالتے ہیں اور ہر نبی کو اس کے حالات کے مطابق اپنی قدرت کے نشانات دکھلایا کرتے ہیں تاکہ ان کے کلام اور خطاب میں انقلابی تاثیر پیدا ہوجائے اس انقلابی تاثیر کی بنا پر لوگ انبیاء کا انکار کرنے کے باوجوددل میں ان کی سچائی کے قائل ہوا کرتے تھے۔ یہاں عین الیقین کے درجے کو پانے کے لیے جناب ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور سوال پیش کر رہے ہیں۔ رب حکیم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کے الزام سے بچانے کے لیے ہی یہ سوال فرمایا کہ کیا ابراہیم (علیہ السلام) تم بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے؟ ابراہیم (علیہ السلام) جواباً عرض کرتے ہیں کہ میرے رب کیوں نہیں ! میں تو اطمینان قلب کے لیے یہ درخواست کر رہا ہوں تاکہ قیامت کو اٹھنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میرے دل کا ایک ایک گوشہ اور ریشہ گواہی دے رہا ہو کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا اور اللہ کے حضور پیش ہونا یقینی ہے۔ حکم ہوا کہ ابراہیم چار پرندے پکڑ کر انہیں کچھ مدّت کے لیے اپنے ساتھ مانوس کرو۔ اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کے اعضاء مختلف پہاڑوں پر رکھ کر انہیں اپنی طرف آنے کے لیے آواز دو‘ آواز سنتے ہی وہ تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر قادر ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں بہت سی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ پرندے زندہ ہونے کے بعد ڈر کر ادھر ادھر نہ اڑ جائیں۔ اُڑ کر آنے کے بجائے چل کر آنے کی وضاحت فرمائی کہ بعد میں آنے والے قیامت کے منکر لوگ یہ نہ کہہ پائیں کہ ذبح ہونے والے پرندے زندہ نہیں ہوئے تھے بلکہ کوئی اور پرندے اتفاقاً اڑ کر موقع پر پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ پرندے اڑنے کے بجائے چل کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے جس سے ہر قسم کے شبہات کا ازالہ کردیا گیا۔ پرندوں کے اجزاء اس لیے مختلف چٹانوں پر بکھیر دیے گئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آدمی جس حال میں مرے اللہ تعالیٰ اسے ہر صورت میں اپنے سامنے پیش کرے گا۔ مر کر اٹھنے کے عقیدے کو قرآن مجید اس طرح زور دار طریقے سے بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد اس عقیدے کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ ﴿قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً أَوْحَدِیْدًا أَوْخَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ﴾ [ بنی اسرائیل : 50، 51] ” اے پیغمبر! قیامت کے منکروں کو فرما دو۔ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا ایسی مخلوق بن جاؤ جو تمہارے خیالات میں بڑی ہو۔“ (اللہ تعالیٰ پھر بھی تمہیں اٹھائے گا) (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَّ رَجُلًا کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالًا فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوْا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ فَإِذَا مِتُّ فَأَحْرِ قُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُوْنِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ)[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الانبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ نے مال سے نوازا۔ اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میں تمہارا کیسا باپ ہوں؟ انہوں نے جواب دیا آپ بہترین باپ ہیں۔ اس آدمی نے کہا میں نے کبھی اچھا کام نہیں کیا لہٰذا میرے مرنے کے بعد مجھے جلا کر میری راکھ تیزہواؤں میں اڑا دینا انہوں نے ایسے ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کر کے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا تھا ؟ اس نے عرض کی : الٰہی! تیرے خوف کی وجہ سے ایسا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے معاف کردیا۔“ مسائل :1۔ اطمینان قلب کے لیے سوال کرنا جائز ہے۔ 2۔ مشاہدہ انسان کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسان کے ایک ایک جز کو اکٹھا کریں گے۔