سورة الحج - آیت 46

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا یہ لوگ ملکوں میں چلے پھرے نہیں کہ عبرت حاصل کرتے؟ ان کے پاس دل ہوتے اور سمجھتے بوجھتے، کان ہوتے اور سنتے اور پاتے، حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں پڑتا ہے تو آنکھیں اندھی ہوجایا کرتیں (جو سروں میں ہیں) دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اقوام کی تباہی کی بنیادی وجہ۔ بڑی بڑی اقوام کی تباہی کا تذکرہ کرنے کے بعد اہل دنیا کو دعوت فکر دی ہے کہ کیا انھوں نے دنیا کا جغرافیہ نہیں دیکھا اور تاریخ عالم کو نہیں پڑھا کہ تباہ وبرباد ہونے والے لوگ زمین پر اس طرح دندناتے پھرتے تھے کہ ان کے دبدبہ کی وجہ سے مخلوق کانپتی تھی۔ ان کی زبان جنبش کرتی تو لشکر و سپاہ حرکت میں آجاتے۔ یہ لوگ اپنے محلات سے باہر نکلتے تو ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوتی تھیں جس راستہ سے گزرتے لوگ ان کا جاہ و جلال دیکھ کر ساکت وجامد رہ جاتے تھے۔ ان کو دیکھ کر کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ کبھی زوال پذیر اور تباہ ہوں گے۔ لیکن جب رب ذوالجلال کے عذاب کا کوڑا حرکت میں آیا تو اس طرح نیست و نابود کردیے گئے کہ آج ان کے محلات میں الوؤں کے ڈیرے اور ان کی بستیاں ویرانیوں کا خوفناک منظر پیش کررہی ہیں۔ ان میں عبرت کا سامان ہے مگر ان لوگوں کے لیے جن کے سینے میں سوچنے والے دل، جن کے کان حقیقت سننے والے اور عبرت کی نگاہ سے دیکھنے والی آنکھیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی۔ لوگوں کے دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ جب دل اندھے ہوجائیں تو دیکھنے والی آنکھیں، سننے والے کان اور دھڑکنے والے دل کچھ کام نہیں آتے۔ جب کسی قوم کی اجتماعی صورت ایسی ہوجائے تو ان کو نہ اقتدار بچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سہارا کام دیتا ہے، مذکورہ بالا اقوام کا یہی حال تھا جس وجہ سے انھیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ مسائل: 1۔ دل سوچنے، کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کے لیے ہیں۔ 2۔ دل اندھا ہوجائے تو انسانی اعضاء حقیقتاً بے کار ہوجاتے ہیں۔