سورة الحج - آیت 42

وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) اگر یہ (منکر) تجھے جھٹلائیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) ان سے پہلے کتنی ہی قومیں اپنے اپنے وقتوں کے رسولوں کو جھٹلا چکی ہیں۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 42 سے 45) ربط کلام : جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور ” اللہ“ کے دیے ہوئے ضابطۂ حیات کو اختیار نہ کیا ان کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء اکرام کے ذریعے لوگوں کو ایک ضابطہ حیات عطا فرمایا جس کے بنیادی اصول یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے اپنا معبود اور حاکم تسلیم کریں اور اس کے دیے ہوئے نظام حیات کو خود اپناؤ اور اس کے بندوں پر اس کا نفاذ کریں۔ جس کے بنیادی اصولوں کا پچھلی آیت میں بیان ہوچکا ہے۔ کا مل اور جامع ہدایات کے باوجود دنیا کی بڑی بڑی اقوام نے اللہ کی توحید کا انکار کیا اور اس کے دئیے ہوئے ضابطہ حیات کو ٹھکرایا۔ جن میں سر فہرست قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط، قوم شعیب اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ہے، جنہوں نے اپنے رب کی توحید کا انکار کیا اور اس کے نازل کردہ دین کو ٹھکرایا، جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں اس طرح نیست و نابود کیا کہ ان کی ترقی ان کے لیے وبال جان ثابت ہوئی۔ ان کے محلاّت ان کے لیے قبرستان بنا دیے گئے۔ کھیتیاں اور باغات اجڑ گئے کنویں ناکارہ ہوئے اور بستیاں اس طرح ویران ہوئیں کہ دیکھنے والا گمان کرے کہ یہاں کبھی کوئی رہنے والا نہ تھا۔ ﴿فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاوَ مَا کَان اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلَمُوْنَ﴾ [ العنکبوت :40] ” آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہوں کی وجہ سے پکڑا ان میں سے کسی پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو ہم نے غرق کردیا۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔“ متمول اقوام کی تباہی : تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تباہ ہونے والی اقوام دنیا کے اعتبار سے غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ نہ تھیں بلکہ وہ اپنے اپنے دور کی مہذّب اور ترقی یافتہ اقوام تھیں۔ ﴿فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ﴾ [ الانعام :44] ” پھر جب وہ اس کو بھول گئے جو انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تھیں ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ اچانک ناامیدہوگے۔“ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ کی پکڑ کی مختلف شکلیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام :6) 2۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس :13) 3۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ:5) 4۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ:6) 5۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 6۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود :82)