سورة الحج - آیت 37

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یاد رکھو ! اللہ تک ان قربانیوں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے نہ خون، اس کے حضور جو کچھ پہنچ سکتا ہے وہ تو صرف تمہارا تقوی ہے (یعنی تمہارے دل کی نیکی ہے) ان جانوروں کو اس طرح تمہارے لیے مسخر کردیا کہ اللہ کی رہنمائی پر اس کے شکر گزار رہو اور اس کے نام کی بڑائی کا آواز بلند کرو، اور نیک کرداروں کے لیے (قبولیت حق کی) خوشخبری ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : قربانی کے مسائل: کا بیان جاری ہے۔ عربوں میں یہ بھی جہالت پائی تھی کہ جب وہ قربانی ذبح کرتے تو اس کا خون اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے تھے۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا کہ ہماری قربانی قبول ہوچکی ہے۔ قرآن مجید نے اس رسم کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ کو تمھاری قربانیوں کا نہ خون پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت۔ اسے دلوں کا اخلاص اور تمہاری پرہیزگاری درکار ہے کہ تم کس جذبے اور نیت کے ساتھ قربانی کرتے ہو۔ جس میں پہلا جذبہ یہ درکار ہے کہ قربانی کرنے والا یہ احساس دل میں لائے کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے وسائل اور طاقت سے یہ جانور میرے تابع ہوا ہے۔ دوسرا یہ جذبہ پیدا کرے کہ اسی کی ہدایت اور توفیق سے میں اسے ذبح کررہا ہوں۔ اگر وہ مجھے ہدایت اور توفیق نہ بخشتا تو مجھ میں کب ہمت تھی کہ میں قربانی کرتا۔ ہدایت سے مراد وہ توفیق اور راہنمائی ہے جس بنا پر آدمی دوسروں کی بجائے صرف اور صرف اپنے رب کے حضور اور اس کی رضا کے لیے نذونیاز اور قربانی پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اس اخلاص کے ساتھ قربانی ذبح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہی کی قربانی قبول کرتا ہے اسی لیے قربانی کے وقت آپ (ﷺ) یہ دعا پڑھتے تھے۔ ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ [ الانعام :162] ” اے پیغمبر (ﷺ) کہہ دیجیے! میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِِ () اَمَرَ بِکَبْشٍ اَقْرَنَ یَطَأُ فِیْ سَوَادٍ وَّیَبْرُکُ فِیْ سَوَادٍ وَیَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ فَاُتِیَ بِہٖ لِیُضَحِّیَ بِہٖ قَالَ یَا عَآئِشَۃُ ھَلُمِّی الْمُدْیَۃَ ثُمَّ قَالَ اشْحَذِیْھَا بِحَجَرٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ اَخَذَھَا وَاَخَذَ الْکَبْشَ فَاَضْجَعَہُ ثُمَّ ذَبَحَہُ ثُمَّ قَالَ (بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ) ثُمَّ ضَحّٰی بِہ) [ رواہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الضَّحِیَّۃِ وَذَبْحِہَا مُبَاشَرَۃً بلاَ تَوْکِیلٍ وَالتَّسْمِیَۃِ وَالتَّکْبِیرِ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے سینگوں والا مینڈھا جس کی ٹانگیں‘ پیٹ اور آنکھیں سیاہ تھیں مجھے لانے کا حکم دیا۔ جب یہ جانور ذبح کے لیے لایا گیا تو آپ نے مجھے چھری لانے کے لئے فرمایا ساتھ ہی فرمایا کہ پتھر پر چھری تیز کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا آپ نے چھری پکڑی اور مینڈھے کو لٹا کر ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ پڑھی اور یہ الفاظ ادا کیے۔ الٰہی محمد (ﷺ)‘ آل محمد اور محمد (ﷺ) کی امت کی طرف سے قبول فرما۔“ بعض نام نہاد دانشور اور کچھ لوگ آسمانی آفت زلزلہ‘ سیلاب‘ غربت یا جہاد کے جذبہ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ہر سال قربانی کرنے کے بجائے قربانی کی رقم جہاد اور فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہونی چاہیے۔ ایسے احباب کو یاد رکھنا چاہیے کہ نبی محترم (ﷺ) نے مدینہ طیبہ کے دس سالہ دور میں قربانی بھی کی اور جہاد بھی جاری رکھا۔ جہاں تک غربت کا معاملہ ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کے دور سے زیادہ مسلمانوں پر کبھی بھی غربت کا دور نہیں آیا۔ لہٰذا لوگوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہر حال میں نبی کریم (ﷺ) کی سنت کی پیروی قربانی کرتے رہیں۔ کیونکہ ارشاد ہے : ” ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ نبی (ﷺ) نے ارشاد فرمایا قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسند کوئی عمل نہیں۔ قربانی کا جانور اپنے سینگوں‘ کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ اس لیے قربانی کرنے پر خوش ہوا کرو۔“ (رواہ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ) مسائل: 1۔ اللہ کو قربانی کا گوشت پوست اور خون نہیں پہنچتا۔ 2۔ اللہ کو قربانی کرنے والے کا اخلاص درکار ہے۔ 3۔ قربانی پر تکبیر پڑھنا چاہیے۔ بسم اللہ واللہ اکبر۔ 4۔ اخلاص کے ساتھ قربانی دینے والے کے لیے خوشخبری ہے تفسیر بالقرآن: محسنین کے اوصاف : 1۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود :115) 2۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ:195) 3۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ:13) 4۔ محسنین تنگی اور کشادگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ (آل عمران :134)