لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین کے بارے میں کسی طرح کا جبر نہیں (کیونکہ وہ دل کے اعتقاد سے تعلق رکھتا ہے، اور جبر و تشدد سے اعتقاد پیدا نہیں کیا جاسکتا) بلاشبہ ہدایت کی راہ گمراہی سے الگ اور نمایاں ہوگئی ہے (اور اب دونوں راہیں لوگوں کے سامنے ہیں۔ جسے چاہیں اختیار کریں۔ پھر جو کوئی طاغوت سے انکار کرے (یعنی سرکشی و فساد کی قوتوں سے بیزار ہوجائے) اور اللہ پر ایمان لائے تو بلاشبہ اس نے (فلاح و سعادت کی) مضبوط ٹہنی پکڑ لی۔ یہ ٹہنی ٹوٹنے والی نہیں (جس کے ہاتھ آگئی وہ گرنے سے محفوظ ہوگیا) اور یاد رکھو اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : قدرت و سطوت ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو منوانے کا جبری طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ اس فرمان میں واضح اشارہ ہے کہ توحید کا دوسرا نام دین ہے۔ اس کے بغیر نہ لوگوں کا دین صحیح اور پختہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی تعلق باللہ مضبوط ہو سکے گا عقیدہ توحید اپنانا مضبوط رسی تھامنے کے مترادف ہے جس طرح رسی تھامنے والا بھنور میں نہیں ڈوبتا۔ اسی طرح عقیدہ توحید پر قائم رہنے والا اختیار کرنے والا دنیا و آخرت کے مسائل اور مصائب میں نہیں ڈولتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہنمائی اور دستگیری کرنے والا ہے جبکہ شیطان اللہ کے منکروں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلتا ہے۔ یہاں لفظ دین سے پہلی مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ اس کی نہایت مختصر مگر جامع تعریف آیت الکرسی میں کردی گئی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور ہر چیز اس کے حکم کی غلام اور تابع فرمان ہے۔ کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا کوئی راز اور بات اس سے مخفی نہیں‘ نہ ہی وہ کسی بات سے غافل ہے۔ وہ ہمیشہ سے قائم دائم اور جب تک کسی چیز کو چاہے اسے زندہ اور قائم رکھنے والا ہے۔ زمین و آسمان کی حفاظت و نگرانی سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاہٹ محسوس کرتا ہے۔ اس کی حکومت ہواؤں اور فضاؤں حتی کہ زمین کے ذرّے ذرّے اور آسمان کے چپّے چپّے پر قائم ہے۔ اس کے اقتدار و اختیار کی وسعتیں لامحدود ہیں۔ وہ ہر چیز پر بلند و بالا اور اپنی عظمت و سطوت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود اس نے اپنی ذات اور بات منوانے کے لیے جبر و اکراہ کا اندازاختیار نہیں فرمایا۔ ذرا سوچیے کہ انسان نے دنیا میں آکر کون سے جرائم اور بغاوتیں نہیں کیں؟ اگر اللہ تعالیٰ روکنا چاہتاتو اس کی قوت وطاقت سے کچھ بھی باہر نہ تھا لیکن اس نے ہدایت کو گمراہی سے کئی گنا واضح اور آسان فرما کر انسان کو سمجھایا کہ اگر تو اپنے رب کی ذات اور اس کی بات پر ایمان لے آئے تو تیرا رب کے ساتھ ایسا تعلق اور رشتہ قائم ہوجائے گا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی ذات اور فرمان کو بلا شرکت غیرے تسلیم کرتے ہوئے ہر شیطانی قوت کا انکار کرے۔ دنیا میں جتنے بھی حلف لیے جاتے ہیں ان میں حلف اٹھانے والا صرف یہی کہتا ہے کہ میں فلاں قانون، دستور اور سلطنت یا مملکت کا وفا دار رہوں گا۔ اسلام صرف اس شخص کا حلف تسلیم کرتا ہے جو پہلے غیر اللہ کا انکار کرے اور پھر اپنے خالق ومالک کی ذات و صفات کا اقرار کرے تب جا کر حلف مکمل اور آدمی حلقۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جہاں تک دین میں جبر نہ کرنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں کچھ لوگ تو واقعتاغلط فہمی میں مبتلا ہیں لیکن زیادہ تر غلط فہمی پیدا کرنے والے ہیں۔ غلط فہمی پیدا کرنے والے کوئی ان پڑھ، دیہاتی اور اجڈلوگ نہیں بلکہ نہایت تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور اپنے آپ کو مہذب ترین سمجھنے والے ہیں۔ انہیں انفرادی طور پر دین کی دعوت دی جائے یا ملک میں نفاذ شریعت کی بات چلے تو وہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ جبرًا کسی کو مسجدوں کی طرف نہیں دھکیلا جا سکتا‘ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے‘ اس میں حکومت کو بھی دخل اندازی کا کوئی حق نہیں اور جبری عبادت تو ویسے ہی قبول نہیں ہوتی۔ پھر یکدم اس آیت کریمہ کے الفاظ یا اس کے مفہوم کا حوالہ دیتے ہیں۔ بالخصوص حدود کے نفاذ کی بات ہو تو ان کو فوری خطرات لاحق ہوتے ہیں کہ اس طرح تو لوگوں کے ہاتھ کٹ جائیں گے۔ اسلام کے حوالے سے چوری کی روک تھام کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے لوگوں کے روزگار کا بندوبست کیا جائے۔ گویا کہ ان کے نزدیک جب تک ملک میں شہد کی نہریں نہ چل نکلیں کسی چور اور ڈاکو کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔ کچھ جرأت مند بےدین تو حدوداللہ کو ویسے ہی وحشیانہ قانون قرار دیتے ہیں۔ سختی کا حکم :جہاں تک قانون اور حدود کا تعلق ہے تو دنیا میں کونسا ایسا ملک ہے جہاں چور، ڈاکو اور قاتل کو سزا دینے کی بجائے تمغۂ جرأت عطا کیا جاتا ہے؟ ہر ملک میں ایسے لوگوں کو کچھ نہ کچھ سزائیں ضرور دی جاتی ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کے وجود کا مقصدہی ملک میں اجتماعی نظام کی حفاظت اور قانون کا نفاذ ہوا کرتا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرسکیں۔ اگر کوئی قانون کا احترام نہیں کرتا اور اس پر قانون کا نفاذنہ کیا جائے تو حکومت اور مملکت کے اجتماعی نظام کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اس بات سے ہی اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر اسلامی مملکت میں مجرم کو شریعت کے مطابق سزا نہ دی جائے تو پھر حدودو قصاص کی آیات اور احادیث کا کیا مقصد ہوگا؟ اگر حدود نافذ کرنا حکومت کا لوگوں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ہے تو پھر کیا لوگوں کو ایک دوسرے پر قانون نافذ کرنے کی اجازت دے دینی چاہیے یا معاشرے کو کھلا چھوڑ دینا چاہیے؟ دین میں جبر نہ ہونے کا فقط اتنا ہی مفہوم ہے کہ غیر مسلم کو جبرًامسلمان نہیں بنایا جا سکتا۔ جہاں تک اس معاملہ میں ملت اسلامیہ کے کردار و اخلاق کا تعلق ہے مسلمان تقریباً نو سو سال تک مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک بلا شرکت غیرے حکمران رہے۔ کیا انہوں نے کسی معبد خانے، کلیسا اور آتش کدہ میں جا کر تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک سے لوگوں کو مسلمان بنایا ؟ ہرگز نہیں! ایسا کرنا تو درکنار انہوں نے دوسروں کے عبادت خانوں میں جا کر دعوت اسلام دینا بھی اخلاقیات کے منافی اور دوسروں کے حقوق میں مداخلت سمجھا تاکہ غیر مسلم جبر کا پہلو محسوس نہ کریں۔ یہاں تک کہ حالت جنگ میں بھی کسی کو جبرًامسلمان بنانے کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی کیونکہ مسلمان کو روز اول ہی سے حکم ہوا ہے کہ دین میں جبرنہیں۔ تاہم جو لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیں ان کو جبراً نماز پڑھانا، ان سے زکوٰۃ وصول کرنا اور ان پر اسلامی قانون جاری کرنا حکومت کا فرض ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ﷺ) نے انتقال فرمایا اور حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو عرب کے کچھ قبائل نے زکٰو ۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے فرمایا میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ زکٰوۃ ادا کریں۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جب کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لاإلہ إلا اللہ نہ کہیں۔ جس نے یہ شہادت دے دی اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچالیے إلا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے سزا کے طور پر اس کے کوئی جرمانہ، دیت وصول کی جائے یا اسکو جسمانی سزا دی جائے۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر (رض) نے کہا اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔ اس لیے کہ زکوٰۃ اللہ کا حق ہے اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ زکوٰۃ کی مد میں مجھے بکری کا ایک بچہ نہ دیں جو رسول اللہ (ﷺ) کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ تب حضرت عمر (رض) نے کہا اللہ کی قسم! اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر (رض) کے دل میں جو جہاد کا ارادہ پیدا ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں سمجھ گیا کہ حضرت ابوبکر (رض) کی رائے درست ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب وجوب الزکوۃ] (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلوۃ] ” عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کی تلقین کرو جب دس سال کے ہوں تو انہیں جبراً نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر جدا کردو۔“ ان دلائل سے ثابت ہوا کہ کلمہ گو کو جبراً شریعت پر چلایاجائے گا۔ الکرسی سے مرا دکرسی ہی لینی چاہیے۔ کچھ لوگوں نے کرسی سے مرا داللہ تعالیٰ کا اقتدار لیا ہے۔ واللہ اعلم مسائل : 1۔ دین میں جبر نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے نمایاں ہوچکی ہے۔ 2۔ طاغوت کا انکار اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانانہ ٹوٹنے والی رسی کو پکڑنا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔ تفسیربالقرآن :دین میں جبر نہیں : 1۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ:256) 2۔ نبی (ﷺ) کو لوگوں پر داروغہ نہیں بنایا گیا۔ (بنی اسرائیل :54) 3۔ نبی کسی کو ہدایت کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ (القصص :56) 4۔ نبی کسی پر نگران نہیں ہوتا۔ (النساء :80)