سورة الحج - آیت 15

مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جو آدمی (مایوس ہوکر) ایسا خیال کر بیٹھتا ہے کہ اللہ دنیا اور آکرت میں اس کی مدد کرنے والا نہیں تو (اس کے لیے زندگی کی کوئی راہ باقی نہ رہی) اسے چاہیے ایک رسی چھت تک لے جاکر باندھ دے، اور (اس میں گردن لٹکا کر زمین سے) رشتہ کاٹ لے، پھر دیکھے اس تدبیر نے اس کا غم و غصہ دور کردیا یا نہیں؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 15 سے 16) ربط کلام : مشرک اور منافق اپنی بے اعتمادی اور بد اعتقادی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیروں سے مدد طلب کرتا ہے۔ اس لیے اسے ایک تمثیل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مشرک، منافق اور جو شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کرے گا۔ اسے چاہیے کہ ایک رسی آسمان کی طرف لٹکائے پھر اسے کاٹ دے اور اب دیکھے کیا اس کا ایسا کرنا اس کے غصہ کو ٹال دے گا ؟ اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو بالکل کھول کر بیان کرتا ہے۔ بلاشبہ وہ اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدا یت کی چاہت اور ارادہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عملی مثال کی طرف اشارہ فرما کر یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کفر و شرک اور بد اعتقادی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مدد نہیں کرے گا۔ اس کی مثال تو ایسے شخص کی ہے کہ جو ایک رسی کے ذریعے چھت پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر چڑھ نہیں سکتا وہ طیش میں آکر رسی کو کاٹ ڈالتا ہے۔ اسے اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے وہ چھت پر چڑھ جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں چڑھ سکتا۔ یہی مثال اس شخص کی ہے جو اپنی بد اعتقادی اور جلد بازی کی وجہ سے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ایک عرصہ بیت چکا مجھے دعائیں کرتے ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مشکل حل نہیں کی۔ وہ دل ہی دل میں طیش کھا کر اپنے رب کو چھوڑ کر کسی اور کے در پر جھکتا اور اس سے مانگتا ہے۔ اس کے اس طرح کرنے سے کیا لازم ہے کہ اس کی مصیبت کٹ جائے ؟ ظاہر ہے اس طرح اس کی مصیبت دور نہیں ہو سکتی۔ گویا کہ جس طرح رسّی کا ٹنے والا اوپر چڑھنے کی بجائے پستی پر گر پڑتا ہے۔ اسی طرح اپنے رب کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگنے والا فکری اور عملی طور پر پستی کا شکار ہوجاتا ہے جس وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ اس مثال کے ذریعے توحید کی رفعت اور شرک کی ذلّت بتلا کر سمجھایا گیا ہے کہ انسان کو ہر حال میں اپنے رب پر اعتماد اور اس کی رحمت پر امید رکھنی چاہیے۔ جو انسان اپنے رب پر بھروسہ ختم کردے اور اس کی رحمت سے ناامید ہوجائے دربدر کی ٹھوکریں کھانا یا خودکشی کے گھاٹ اترنا اس کا مقدر ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی شخص کی رہنمائی کرتا ہے جو اس سے خلوص نیت کے ساتھ ہدایت چاہتا ہے اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس سے مدد مانگتا ہے۔ ﴿اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہٗ اللّٰہُ﴾ [ الحج :15] ” کہ اللہ اس کی مدد نہیں کرے گا۔“ کچھ مفسرین نے اس کا یہ مفہوم لیا ہے کہ ”ۂ“ کا اشارہ سرور دو عالم (ﷺ) کی طرف ہے اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہیے کہ وہ آسمان پر چڑھ کر آپ (ﷺ) پر نازل ہونے والی مدد کو روک لے۔ جس طرح یہ ممکن نہیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی اسلام کے غلبہ کو روک سکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿کَتَبَ اللّٰہُ لاََغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْز﴾ [ المجادلۃ:21] ” اللہ نے بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب آکر رہے گے بے شک اللہ بڑا ہی قوت و غلبہ والا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کی مدد سے ناامید ہونے والا شخص آخری سہارا بھی کھو بیٹھتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرامین کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ راہنمائی حاصل کریں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی دنیا اور آخرت میں انسان کی مدد کرنے والا ہے : 1۔ وہ ذات جس نے آپ (ﷺ) کی اور مومنوں کی مدد فرمائی۔ (الانفال :62) 2۔ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران :126) 3۔ اللہ حق والوں کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ (الحج :39) 4۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم :5) 5۔ اے اللہ ! میں مغلوب ہوگیا ہوں میری مدد فرما ( نوح (علیہ السلام) کی دعا )۔ (القمر :10) 6۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران :150) 7۔ الٰہی اپنی طرف سے میرے لیے مددگار بنا۔ (بنی اسرائیل :80)