وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ
اور (دیکھو) ہم نے (سمندر کی) تند ہواؤں کو بھی سلیمان کے لیے کیسا مسخر کردیا تھا کہ اس کے حکم پر چلتی تھیں اور اس سرزمین کے رخ پر جس میں ہم نے بڑی ہی برکت رکھ دی ہے (یعنی فلسطین اور شام کے رخ پر جہاں بحر احمر اور بحر متوسط سے دور دور کے جہاز آتے تھے) اور ہم ساری باتوں کی آگاہی رکھتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 81 سے 82) ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے ہونہار صاحب زادے کا ذکر۔ ﴿وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَاحُھَا شَھْر﴾ [ السباء :12] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو۔“ مزید تفصیل سورۃ ص میں بیان فرمائی۔ ﴿فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَ﴾ [ ص :36] ” پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جدھر وہ جانا چاہتا اس کے حکم کے مطابق بسہولت چلتی تھی۔“ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عِصُیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحراحمر میں یمن اور دوسرے جنوبی ومشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے اور دوسری طرف بحر روم کے بندرگاہوں سے ان کا بیڑہ (جسے بایئبل میں ” ترسیسی بیڑہ“ کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقۂ عَرَبہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورۃ سبا میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق آئی ہے کہ ﴿وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ﴾ ” اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا۔“ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ” مسخر“ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو جیسا کہ ﴿تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ ﴾(اس کے حکم سے چلتی تھی) کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ (تفہیم القرآن) سیدنا سلیمان (علیہ السلام) : حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں لہٰذا ان کا نسب بھی یہودا کے واسطے سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے ملتا ہے۔ ﴿وَ وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا وَ نُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ﴾ [ الانعام :84] ” اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کئے ہر ایک کو ہدایت بخشی اور نوح کو ابراہیم سے پہلے ہدایت بخشی اور ابراہیم کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو ہدایت عطا کی۔“ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر مبارک سولہ مقامات پر آیا۔ ان میں سے چند مقامات پر تفصیلی ذکر ہے اور اکثر جگہ مختصر طور پر البقرۃ: 102 النساء : 163 الانعام : 89 الانبیاء : 78۔ 81 النمل : 15۔ 16۔ 17۔ 18۔ 8۔ 30۔ 36۔ 44 السباء : 12 ص : 30۔ 34 حضرت سلیمان (علیہ السلام) فطری طور پر بہت ذہین اور سمجھ دار تھے۔ اپنے والد داؤد (علیہ السلام) کی معیت میں سن شعور کو پہنچے تو اس وقت حضرت داؤد (علیہ السلام) کا انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا اور حکومت میں بھی حضرت داؤد (علیہ السلام) کا جانشین بنایا۔ قرآن حکیم نے اسی جانشینی کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی وراثت قرار دیا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی نبوت میں بھی وارث قرار پائے۔ نبوت وراثت کی چیز نہیں جو لازماً اولاد کے حصے میں آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء ( علیہ السلام) پر یہ بھی فضل کیا ہے کہ ان کی اولاد کو نبوت میں بھی ان کا جانشین بنایا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی ان انبیائے کرام میں سے ایک ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی خصوصیات و امتیازات سے نوازا گیا جس کی وجہ سے وہ انبیاء میں ممتاز حیثیت کے حامل ہوئے :۔ ﴿وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ﴾ [ النمل :16] ” اور وارث ہوئے سلیمان حضرت داؤدکے“ ” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کو زیبا ہے جس نے اپنے مومن بندوں پر ہم کو فضیلت عطا کی ہے۔ سلیمان داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور انہوں نے کہا لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے اور ہم کو ہر چیز بخشی گئی ہے بیشک یہ اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ [ النمل :15] حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خصوصی امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ” ہوا“ کو انکے زیر فرماں کردیا تھا وہ جب اور جہاں چاہتے اس کو چلنے اور رک جانے کا حکم دیتے تھے۔ ہوائیں ان کے حکم سے نرم اور سبک رفتار ہوجاتی تھیں جب تیز روی کا حکم دیتے تو برق رفتاری کا یہ عالم ہوتا کہ اس کے دوش پر سوار ہو کر ایک ماہ کی مسافت صبح کے وقت اور ایک ماہ کی مسافت شام کے آخری لمحات میں طے کرلیتے تھے۔ ان کا تخت جہاں چاہتے ہوا پہنچادیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عام قوانین قدرت کے تحت کائنات کی اشیاء کو اسباب کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ اسی طرح اپنے قانون خاص کے تحت انبیاء کے ساتھ معاملہ فرمایا ہے جس کو معجزہ کہا جاتا ہے۔ ہوا کا تابع فرمان ہونا اسی قسم سے ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیر نگیں نہ صرف انسان تھے بلکہ جنات اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے یہ ایسا اقتدار تھا کہ کائنات میں شاید ہی کسی اور کو عطا کیا گیا ہو۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا : ” اے پروردگار مجھے معاف فرما دے اور مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو بے شک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔“ [ ص :35] معدنیات تک رسائی : اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تانبے کے چشمے فراہم کئے گئے جس کو تعمیرات کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کا انعام خاص یہ تھا کہ ان چشموں کو آشکارا کردیا گیا جن سے پہلے کوئی شخص آگاہ نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے حضرت قتادہ (رض) کی ایک روایت نقل کی ہے کہ پگھلے ہوئے تانبے کے یہ چشمے ملک یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ظاہر کردیا تھا۔ (البدایہ والنہایہ ج2) شیاطین جنّات کا تابع فرماں ہونا : ” اور شیاطین میں سے ہم نے اکثر کو سلیمان کا تابع بنا دیا تھا جو ان کے لیے سمندر میں موتی نکالنے کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام بھی کرتے تھے ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔“ [ انبیاء :82] ” اور سلیمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پوری طرح نظم وضبط میں رکھے جاتے تھے۔“ [ النمل :17] ” اور سرکش جنوں کو بھی ان کے تابع کردیا ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور اور سرکش وباغی بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ ہم نے سلیمان سے کہا یہ ہماری عطا ہے تم کو اختیار ہے جس کو چاہو دو اور جس سے چاہے روک لو کوئی حساب کتاب نہیں۔“ [ ص : 37تا39] چیونٹیوں اور جانوروں پر حکمرانی : وادئ نملہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ علم خاص معجزہ کے طور پر دیا گیا تھا جس طرح ایک انسان دوسرے انسان کی گفتگو بے تکلف سن لیتا ہے اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کی بولیاں سن اور سمجھ لیا کرتے تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں مدّت مدید تک بارش نہ ہوئی۔ سلیمان (علیہ السلام) لوگوں کے ساتھ صلوٰۃِ استسقاء کے لیے کھلے میدان کی طرف نکلے۔ راستہ میں دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے اگلے پیر اٹھائے آسمان کی طرف منہ کئے دعا کر رہی ہے : خدایا ہم بھی تیری مخلوق اور تیرے فضل وکرم کے محتاج ہیں ہم کو بارش سے محروم رکھ کر ہلاک نہ فرما۔ سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی دعا سنی اور اپنی قوم سے فرمایا واپس چلو ایک چیونٹی کی دعا نے ہمارا کام پورا کردیا۔ اب بارش ضرور ہوگی۔ (تاریخ ابن کثیر : ج،2) ایک مرتبہ حضرت سلیمان جن وانس اور حیوانات کے ایک عظیم لشکر کے ساتھ کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے چلتے چلتے لشکر ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بے شمار تھیں اور پوری وادی ان کا مسکن بنی ہوئی تھی چیونٹیوں کی سردار نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کو دیکھ کر کہا اے چیونٹیو۔ فوراً اپنی اپنی بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں بے خبری میں روند نہ دے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹیوں کی سردار کی بات سنی تو ہنس پڑے۔ ( السباء : 18۔19) ہُدہُد اور ملکۂ سبا : ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) اپنے دربار میں پورے جاہ وجلال کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ انسان، جنات، حیوانات کے نمائندے بھی موجود تھے لیکن پرندوں میں ہدہد موجود نہ تھا۔ فرمایا کیا بات ہے کہ میں ہد ہد کو موجود نہیں پاتا؟ اگر وہ واقعی غیر حاضر ہے تو اس کو سخت سزادوں گا یا پھر ذبح کر ڈالوں گا۔ الاّ یہ کہ وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بیان کرے۔ اسی غضب میں تھے کہ ہدہد حاضر ہوگیا اور حضرت سلیمان کے سوال پر کہنے لگا کہ میں ایک یقینی خبر لایا ہوں جسے آپ نہیں جانتے۔ وہ یہ ہے کہ سبا کے ملک پر ایک ملکہ حکمرانی کرتی ہے۔ اللہ نے اس کو سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت نہایت عظیم الشان ہے ملکہ اور اس کی قوم سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ الٰہ واحدکی عبادت نہیں کرتے شیطان نے ان کی سورج پرستی کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ خبر سن کر فرمایا کہ تیری سچائی کا ابھی علم ہوجائے گا۔ میرا خط لے جا اور اس کو ان تک پہنچا اور انتظار کر کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ہدہد خط لے کر اڑا اور خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا ملکہ خط پڑھ کر اہل دربار سے کہنے لگی کہ ابھی ابھی یہ خط سلیمان کی جانب سے آیا ہے۔ جو اللہ کے نام سے شروع کیا گیا ہے جو بڑا مہربان رحم فرمانے والا ہے۔“ خط کا مضمون یہ ہے کہ تم سرکشی کا اظہار نہ کرو اور میرے پاس تابعدار ہو کر آجاؤ۔ (النمل :31) وزیروں مشیروں نے کہا جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم طاقت ور اور جنگی قوت کے مالک ہیں البتہ آخری فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے جو مناسب سمجھیں فیصلہ فرمائیں۔ ملکہ نے کہا بیشک ہم طاقتور ہیں لیکن سلیمان کے معاملے میں ہمیں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پہلے اپنے نمائندے بھیجوں جو اس کی خدمت میں تحائف پیش کریں۔ اس سے اس کی شان وشوکت اور مزاج کا اندازہ لگائیں کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ اگر واقعی قوت وشوکت کے مالک ہیں تو پھر ان سے لڑنا فضول ہے۔ کیونکہ فاتح بادشاہوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی شہر میں فاتحانہ طور پر داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور باعزت شہریوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ تیسرا واقعہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اہل دربار سے مخاطب ہو کر فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ ملکۂ سبا کے ہمارے ہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت اٹھا کر یہاں لے آیا جائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ملکہ کو ایک معجزہ دکھانا چاہتے تھے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے مرسلین کو کس طرح غیر معمولی طاقت عطا فرماتا ہے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ سلیمان واقعی اللہ کارسول ہے۔ یہ سن کر ایک دیو پیکر جِن کہنے لگا یہ کام میں انجام دوں گا اور آپ کا دربار برخاست ہونے سے پہلے پہلے تخت لے آؤں گا میں طاقتور اور امانتدار ہوں۔ جن کا دعویٰ سن کر دربار کے ایک اہل علم نے کہا۔ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے تخت کو پیش کرتا ہوں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے رخ پھیراتو تخت ان کے سامنے تھا۔ فرمانے لگے یہ میرے پروردگار کا فضل ہے وہ مجھ کو آزماتا ہے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نافرمانی کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے اپنی ذات ہی کو فائدہ دیتا ہے اور جو نافرمانی کرتا ہے اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے رب کے شکر گزار بندے اور نبی تھے۔ اس موقعہ پر اس لیے شکریہ ادا کیا کہ میرے رب نے نہ نا صرف مجھے اقتدار، اختیارات اور امتیازات دیے بلکہ میرے ساتھیوں کو بھی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ عظیم محل : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چاہا کہ نبوت کا اعجاز دکھلانے کے بعد ملکۂ کودنیوی شوکت بھی دکھلا دی جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو دنیا کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو کمتر سمجھے اس لیے شیش محل بنوا کر اس کے صحن میں ایک بڑا حوض بنوایا جس پر بلوری فرش بنا دیا گیا جو دیکھنے والے کو حوض ہی نظر آتا تھا جنوں کی مدد سے یہ عالی شان شیش محل آناً فاناً تیار ہوگیا جو صنعت کاری کے لحاظ سے اپنی نظیر آپ تھا۔ ملکۂ سبا سے کہا گیا کہ قصر شاہی میں قیام کریں۔ ملکہ محل کے سامنے پہنچی تو بہتا ہوا پانی پایا یہ دیکھ کر ملکہ نے اپنے پہنچے اٹھا لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا پہنچے نہ اٹھائیں کیونکہ یہ پانی نہیں بلکہ فرش ہے جو آبگینوں سے بنایا گیا ہے۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی وفات : بیت المقدس کی تعمیر کا آغاز حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کیا تھا وہ اپنے انتقال کی وجہ سے مکمل نہ کر پائے۔ ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تکمیل فرمائی۔ تعمیر کے مکمل ہونے کے باوجود تیاری کا کام کچھ باقی تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا وقت قریب آ پہنچا۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے سوچا کہ اگر جنات کو معلوم ہوگیا تو کام چھوڑ دینگے اور تعمیر نامکمل رہ جائیگی۔ ان (علیہ السلام) نے یہ انتظام کیا کہ موت سے کچھ قبل شیشے کی بنی ہوئی محراب میں داخل ہوگئے۔ جنّات اس کے سامنے سے گزرتے تو سلیمان (علیہ السلام) کو رکوع، سجدے اور قیام میں مشغول پاتے اور اپنے اپنے کام میں مصروف رہتے۔ سلیمان (علیہ السلام) طویل قیام کرنے کی خاطر عصا کے سہارے کھڑے عبادت کر رہے تھے تو اسی حالت میں انہیں موت نے آلیا۔ ” جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو جنات کو ان کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز سوائے اس زمین کے کیڑے دیمک کے سوا نہ تھی جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا، جب سلیمان گر پڑے تو جنوں کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلّت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔“ [ سبا :14] کہا جاتا ہے کہ جنات پر یہ راز جب کھلا تو اس وقت تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ اس لیے جنوں کو احساس ہوا کہ اگر وہ غیب داں ہوتے تو اس سے بہت پہلے آزاد ہوجاتے۔ اس کے علاوہ ان گمراہ انسانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ جنّات اور شیاطین غیب کی خبریں نہیں جانتے ہیں۔ یہ جہالت ہر دور میں رہی ہے کہ جنّات غیب کی خبریں جانتے ہیں۔ لیکن سلیمان (علیہ السلام) کی موت نے ثابت کردیا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ تفسیر بالقرآن: حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی فضیلت اور خصوصیات : 1۔ حضرت سلیمان کا قرآن مجید میں 17مرتبہ تذکرہ ہوا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو غیر معمولی بادشاہت عطا فرمائی۔ ( الانبیاء :79) 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تابنے کے چشمے عطا فرمائے۔ ( سبا :12) 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو صنعت وحرفت میں کمال عطا فرمایا۔ ( سبا :13) 5۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو فہم و فراست عطا کی۔ (الانبیاء :79) 6۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے چلتی تھی۔ (الانبیاء :81) 7۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کو علم عطا کیا۔ (النمل :15) 8۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا :12) 9۔ حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی زبان سمجھنے کا فہم عطا کیا۔ (النمل :16)