وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اور پھر جب وہ میدان جنگ میں جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے آئے تو انہوں نے کہا۔ "خدایا (تو دیکھ رہا ہے کہ ہم کمزور ہیں اور تھوڑے ہیں اور مقابلہ ان سے ہے جو طاقتور ہیں اور بہت ہیں۔ پس) ہم (صبر و ثبات کے پیاسوں) پر صبر (کے جام) انڈیل دے (کہ عزم و ثبات سے سیراب ہوجائیں) اور ہمارے قدم میدان جنگ میں جما دے (کہ کسی حال میں بھی پیچھے نہ ہٹھیں) اور پھر (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کر کہ منکرین حق کے گروہ پر فتح مند ہوجائیں
فہم القرآن : (آیت 250 سے 251) ربط کلام: گزشتہ سے پیوستہ جب طالوت کے لشکر کا جالوت کے لشکروں کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو جذبۂ ایمان سے سرشارمجاہد اپنے رب کے حضور دعائیں مانگنے لگے کہ بارِ الٰہا ! ہمیں حوصلہ، ثابت قدمی اور کفار پر غلبہ عطا فرما ! سو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ جناب داوٗد (علیہ السلام) نے کفار کے کمانڈر جالوت کو قتل کیا۔ جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو بہت بڑی مملکت سونپتے ہوئے نبوت سے سرفراز فرمایا۔ یہ وہی داوٗد علیہ السلامہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا جو پیغمبر بھی تھے اور حکمران بھی۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنا علم وفضل عطا کرتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ ہٹائے تو زمین پر فساد عظیم برپا ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ اہل جہاں پر انتہائی فضل فرمانے والا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان دو واقعات میں ایک طرف اہل مکہ کے مظالم کی طرف اشارہ ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو بتلایا جارہا ہے کہ تمہیں بنی اسرائیل کی طرح جنگ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ بے شک تمہارے ساتھ اہل مکہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو عمالقہ نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا۔ ہاں اگر تم پر جنگ مسلط کردی جائے توبنی اسرائیل کے ایمان دار مجاہدوں کی طرح تمہیں بھی پوری غیرت اور جرأت کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے۔ جیسے انہوں نے میدان کارزار میں اترنے سے پہلے اپنے رب سے نصرت وحمایت طلب کی تھی تمہیں بھی اپنے رب کی نصرت ودستگیری مانگنا چاہیے جس طرح بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے دشمن کے مدّ مقابل ہونے کے بعد اپنے کمانڈر سے غداری کی تھی۔ ایسے ہی حالات تمہیں بھی درپیش ہوسکتے ہیں جو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد احد میں منافقین کے کردار کی وجہ سے پیش آئے۔ جب منافقین کفار کو دکھا دکھا کر ٹولیوں کی صورت میں مسلمانوں سے الگ ہوئے تھے۔ وہ طالوت کی سربراہی پر یہ کہہ کر معترض ہوئے تھے کہ اس کے پاس مال نہیں۔ منافق یہ کہہ کر الگ ہوئے تھے کہ اس موقع پر مدینہ میں رہ کر لڑنے کی ہماری تجویز تسلیم نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ رسول مکرم (ﷺ) بھی مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کے حق میں تھے لیکن مسلمانوں کی بھاری اکثریت کا احترام کرتے ہوئے میدان احد میں تشریف لے گئے۔ طالوت کے ساتھیوں کی طرح مکہ والے بھی یہی کہتے تھے کہ یہ نبی تو غریب ہے پیغمبری تو ابو الحکم (ابوجہل) یا طائف کے سرداروں میں سے کسی کو ملنا چاہیے تھی۔ ازل سے اللہ تعالیٰ کا یہی دستور ہے کہ وہ جہاد اور دوسرے ذرائع سے ظالم اور سفّاک لوگوں کو کمزوروں اور مظلوموں کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا کرتا ہے۔ جس کی ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکررہ جائے جو اللہ تعالیٰ کوہر گز گوارا نہیں۔ مسائل : 1۔ قیادت کا انتخاب مال نہیں علمی اور جسمانی صلاحیت پر ہونا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کشادگی اور علم والا ہے۔ 3۔ مجاہد کی تربیت اور آزمائش ہونا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھوڑے زیادہ پر غالب آیا کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ 6۔ جنگ سے پہلے اور اس کے دوران اللہ تعالیٰ سے مدد اور حوصلہ مانگنا چاہیے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکومت اور حکمت عطا کرتا ہے۔ 8۔ اللہ تعالیٰ زمین میں امن قائم رکھنے کے لیے ظالم کو مظلوموں کے ذریعے ہٹایا کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن :طالوت وجالوت کا واقعہ اور حکمران کے اوصاف : 1۔ بنی اسرائیل کا بادشاہ کی تقرری کے لیے درخواست کرنا۔ (البقرۃ:246) 2۔ حکمران کے دو بڑے اوصاف۔ (البقرۃ:247) 3۔ طالوت کے پاس بطور نشانی تابوت سکینہ کا آنا۔ (البقرۃ:248) 4۔ لشکر کا کم ہمتی دکھانا۔ (البقرۃ:249) 5۔ طالوت کا جالوت پر فتح حاصل کرنا۔ (البقرۃ: 250، 251) 6۔ فتح وشکست کا معیار کثرت وقلت نہیں ہے۔ (البقرۃ:249)