سورة الأنبياء - آیت 66

قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ابراہیم نے کہا پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پوجتے ہو جو تمہیں نہ تو کسی طرح کا نفع پہنچائیں نہ نقصان؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 66 سے 68) ربط کلام : قوم کے اقرار جرم کرلینے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا انھیں ایک دفعہ پھر سمجھانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خداداد صلاحیت اور پوری دانشمندی کے ساتھ ایک مکالمے کے ذریعے اپنی قوم کو اس مقام پر لے آئے کہ جب انھوں نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا کہ اے ابراہیم! تو جانتا ہے یہ تو پتھر اور مٹی کے بنے ہوئے بت ہیں جو بول نہیں سکتے۔ اس حقیقت کا اقرار کروانے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں پوچھا کیا پھر تم ان کے سامنے مراقبے، سجدے اور اپنی حاجات پیش کرتے ہو جو نہ تمھیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان دے سکتے ہیں۔ تم پر اور تمھارے معبودوں پر نہایت ہی افسوس ہے۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود بھی تم عقل سے کام لینے کے لیے تیار نہیں ہو۔ ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں دلائل، عملی مشاہدہ اور عقل و فکر کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لوگو! اگر اپنے معبودوں کو بچانا اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہو تو پھر ابراہیم کو جلا کر راکھ کر دو۔ اس کے بغیر اس سے تم اور تمھارے معبود نہیں بچ سکتے۔ مسائل: 1۔ معبودان باطل اپنے آپ اور کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عقل و دانش کے حوالے سے بھی اپنی قوم کو توحید سمجھانے کی کوشش کی۔ 3۔ قوم نے عقل سے کام لینے کی بجائے مخالفت میں آکر ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دینے کا فیصلہ کیا۔