سورة طه - آیت 80

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے بنی اسرائیل ! میں نے تمہارے دشمن سے تمہیں نجات بخشی، تم سے (برکتوں اور کامرانیوں) کا وعدہ کیا جو کوہ طور کے داہنی جانب ظہور میں آیا تھا، تمہارے لیے (صحرائے سینا میں ) من اور سلوی مہیا کردیا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 80 سے 82) ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کے احوال کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو غرق کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہارے دشمن سے تمہیں نجات دی اور اور پر اپنی طرف سے من اور سلویٰ نازل کرنے کے بعد تمھیں حکم دیا کہ جو کچھ ہم نے تمھیں حلال طیب عطا فرمایا ہے۔ اسے کھاؤ اور حد سے گزرنے کی کوشش نہ کرو۔ اگر تم حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے تو میرا غضب تم پر نازل ہوگا۔ جس پر میرا غضب نازل ہوا وہ ہلاک ہوگیا۔ پہلی آیت میں نہایت اختصار کے ساتھ تین واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ 1۔ بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون اور اس کے ساتھیوں سے نجات دلانا۔ دیگر مقامات پر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اے بنی اسرائیل! اپنے رب کے اس احسان کو یاد کرو جب اس نے تمھیں فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مظالم سے نجات دی۔ فرعون تمھیں بدترین سزائیں دینے کے ساتھ تمھارے بیٹوں کو قتل کرتا اور تمھاری بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ یہ تمھارے لیے بہت بڑی آزمائش تھی۔ ہم نے تمھارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا تاکہ تم سلامتی کے ساتھ اس سے گزر جاؤ اور تمھارے سامنے فرعون اور اس کے لاؤ و لشکر کو غرق کردیا۔ (البقرۃ: 49۔50) 2۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فتح تمھارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ لیکن تم نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ہم بیت المقدس میں داخل نہیں ہوں گے کیونکہ وہاں بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تمہیں بار بار سمجھایا لیکن تم نے ان کا حکم ماننے کی بجائے اس حد تک گستاخی کی کہ اے موسیٰ تو اور تیرا خدا جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔ تفصیل کے لیے المائدۃ: 20تا 24آیات کی تلاوت کریں۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا اور حکم فرمایا اللہ کے دیے ہوئے حلال و طیب کو کھاؤ اور سرکشی اختیار نہ کرنا۔ جس نے سرکشی اختیار کی اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا اور جس پر اس کا غضب نازل ہوا وہ دنیا میں برباد ہوا اور آخرت میں اسے اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ جس نے تائب ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی اور صالح اعمال کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف کرتے ہوئے ہدایت سے سرفراز کرے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ اے موسیٰ ! طورپہاڑ کی دائیں جانب فلاں جگہ پر پہنچ جاؤ تاکہ تمھیں تورات عنایت کی جائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی ذمہ داری دے کر کوہ طور کے دامن میں مقررہ وقت اور مقام پر پہنچے تو ان کے پیچھے بنی اسرائیل نے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمائی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ نازل کیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کے دامن میں تورات عطا فرمائی۔ 4۔ اللہ کے باغیوں کے لیے دنیا میں بربادی اور آخرت میں ذلت ہوگی۔ 5۔ جو اپنے رب کے حضور تائب ہوگا وہ مزید ہدایت پائے گا۔ تفسیر بالقرآن: بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ایک جھلک : 1۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام فرمائیں۔ (البقرۃ:47) 2۔ بنی اسرائیل کو ساری دنیا پر فضیلت دی گئی۔ (البقرۃ:47) 3۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دی۔ (البقرۃ:49) 4۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ ( البقرۃ:50) 5۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر من وسلویٰ نازل کیا۔ ( طٰہٰ:86) 6۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف :160)