لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
اور اگر (ایسی صورت پیش آجائے کہ) بغیر اس کے کہ تم نے عورت کو ہاتھ لگایا ہو، اور اس کے لیے جو کچھ (مہر) مقرر کرنا تھا، مقرر کیا ہو، طلاق دے دو تو (ایسا بھی کرسکتے ہو) اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ایسی صورت میں (عورت کو رشتہ جوڑنے اور پھر توڑ دینے سے جو نقصان پہنچا ہے اس کے معاوضے میں ضروری ہے کہ) اسے فائدہ پہنچاؤ۔ ایسا فائدہ جو دستور کے مطابق پہنچایا جائے۔ مقدور والا اپنی حیثیت کے مطابق دے تنگ دست اپنی حالت کے مطابق۔ نیک کردار آدمیوں کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کریں
فہم القرآن : (آیت 236 سے 237) ربط کلام: میاں بیوی کے مسائل کا بیان جاری ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ اب ایسے ہنگامی حالات اور واقعات کے بارے میں ہدایات دی جارہی ہیں جو اس دنیا میں پیش آ ہی جاتے ہیں۔ ان حالات کے کئی اسباب ہوا کرتے ہیں۔ نکاح کے وقت حق مہر پرجھگڑا، نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دی گئی معلومات کا غلط ثابت ہونا اور بعض دفعہ موقع پر اچانک کسی شریر کی شرارت اس قدر شر انگیز اور زوداثر ہوتی ہے کہ خوشی کے موقع پر جمع ہونے والے خاندان کے ذمہ دار افراد آپس میں لڑ کر جدا ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر یہ واقعات اچانک رونما ہوتے ہیں جو فریقین کے لیے نہایت ہی خفت کا باعث اور خاص طور پر بیٹی والوں کے لیے ایسا معاملہ نہایت ہی دل خراش اور سبکی کا باعث ہوتا ہے۔ اس سارے ہنگامے میں سب سے زیادہ متاثر دلہن ہوتی ہے جس کا چند لمحوں بعد نکاح ہونے والا ہوتا ہے۔ لہٰذا نہایت ہی ضروری تھا کہ جس لڑکی کو اس کے خاوند نے چھوئے اور حق مہر مقرر کیے بغیر چھوڑ دیا ہے اس کی دل جوئی کا سامان اور اس کے مستقبل کو کئی قسم کے خدشات اور الزامات سے بچایا جائے۔ کیونکہ اس صورت حال سے اس کا مستقبل خدشات اور شبہات کے حوالے ہوچکا ہے۔ لہٰذا دلخراش اور ہنگامی صورت حال میں حکم دیا کہ صاحب حیثیت اپنے وسائل کے مطابق اور مالی لحاظ سے کمزور اپنی طاقت کے مطابق عورت کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ نیک لوگوں پر اس لیے لازم ہے کہ اس سے طرفین کی پریشانی میں کمی اور عورت کا مستقبل کافی حد تک غلط افواہوں اور الزامات سے محفوظ ہوگا اور دونوں خاندان مزید اختلافات سے بھی بچ جائیں گے۔ نکاح کے بعد یہ صورت بھی پیش آسکتی ہے کہ حق مہر مقرر ہوچکا ہو لیکن میاں بیوی کے باہم ازدواجی تعلقات قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوجائے۔ جس کی کئی ہنگامی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جن میں ایک بڑی وجہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کو ناپسند کرنا ہے۔ نعوذ باللہ یہ کوئی فرضی مسئلہ بیان نہیں کیا جارہا بلکہ غیرمسلم معاشروں کی طرح مسلمان معاشرے میں بھی اس قسم کے واقعات ایک حد تک رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام کی ہمہ جہت رہنمائی، شفقت اور جامعیت کا تصور ذہن میں لائیں کہ وہ زندگی کے تمام اہم شعبوں کی رہنمائی کے لیے کس قدر جامع اور تفصیلی ہدایات جاری کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ میں ہونے والے اس قسم کے ہنگامی واقعات کو مستقل دشمنی کا روپ دھارنے سے پہلے اس کا حل پیش کردیا گیا ہے تاکہ رشتہ داری اور اخوت کے مضبوط قلعہ میں واقعہ ہونے والی دراڑوں کو حتی المقدور پر کرنے کی سعی ہوسکے۔ حق مہر مقرر ہوجانے اور خاوند کا اپنی بیوی سے مجامعت کرنے سے پہلے طلاق دینا خاندانی نظام اور میاں بیوی کے لیے شدید دھچکا ہوا کرتا ہے۔ ایک حد تک اس کی تلافی کے لیے یہ اصول نافذ فرمایا کہ ایسی صورت میں بہتر ہوگا کہ عورت اپنا حق معاف کردے یا اس کا خاوند پورے کا پورا حق مہر دے دے۔ مردو! اگر تم معاف کرو تو یہ تقو ٰی کے زیادہ قریب ہے۔ یہاں تقو ٰی سے مراد باہمی بدگمانیوں اور آئندہ مزید اختلافات اور قلبی نفرتوں سے بچنا ہے۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ علیحدگی کے عمل کے دوران سابقہ تعلقات اور رشتہ داریوں کو پیش نظر رکھا جائے اس بات کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سب کے پوشیدہ اور ظاہر کردار کو دیکھنے والا ہے۔ اس سے تمہاری کوئی زیادتی اور حرکت پوشیدہ نہیں ہے۔ مسائل : 1۔ غیر معمولی حالات میں بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جاسکتی ہے۔ 2۔ مرد کی طرف سے سارا حق مہر چھوڑ دینا تقو ٰی کی علامت ہے۔ 3۔ طلاق کا معاملہ کرتے ہوئے سابقہ محبت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل کو دیکھ رہا ہے۔ تفسیربالقرآن : مطلقہ کے حقوق : 1۔ طلاق والی عورتوں کو مالی وسعت کے مطابق خرچ دینا ہوگا۔ (البقرۃ:236) 2۔ طلاق یافتہ عورتوں کو خرچ دینامتقین پر لازم ہے۔ (البقرۃ:241)