سورة طه - آیت 69

وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تیرے داہنے ہاتھ میں جو لاٹھی ہے فورا پھینک دے، وہ جادوگروں کی تمام بناوٹیں نگل جائے گی۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے محض جادوگروں کا فریب ہے، اور جادوگر کسی راہ سے آئے کبھی کامیابی نہیں پاسکتا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 69 سے73) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی لاٹھی میدان میں پھینکنے کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اطمینان اور کامیابی کا یقین دلانے کے بعد حکم فرمایا آپ کے دائیں ہاتھ میں لاٹھی ہے اسے فی الفور میدان میں پھینک دیں۔ جونہی آپ اسے میدان میں پھینکیں گے تو آپ کی لاٹھی ان کے کیے دھرے کو نگل جائے گی۔ یقین رکھو جادوگرجہاں کہیں ہوں اور جس قدر جادو کا مظاہرہ کریں وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ جونہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر میدان میں کودنے والے سانپوں کو نگل گیا۔ یہ منظر اس قدر ہیبت ناک اور عجیب تھا کہ دیکھنے والے لوگ دنگ رہ گئے۔ جادوگروں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا اژدھا جدھر جاتا ہے ہر چیز ہضم کیے جاتا ہے تو وہ اس حقیقت کو دل کی اتھاہ گہرائی سے سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا بھائی جادوگر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ وہ جادو کی حقیقت کو سمجھتے تھے کہ جادو کے ذریعے بڑی بڑی لاٹھیوں اور رسیوں کے وجود کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جادو تو انسان کی آنکھوں اور اس کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے وہ چیز عارضی طور پر دیکھنے میں بدل جاتی ہے کچھ اہل علم نے ﴿ صَنَعُوْا﴾ کے لفظ کا یہ مفہوم لینے کی کوشش کی ہے کہ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اژدھا کی شکل میں کسی لاٹھی یارسی کے قریب پہنچتا تو اس پر اثر انداز ہونے والا جادو ختم ہوجاتا اور دیکھنے والوں کی نظر میں وہ رسی اور لاٹھی ہی رہ جاتی یہاں کسی حد تک یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ﴿صَنَعُوْا﴾ کی بجائے ﴿ تَلْقَفُ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کو نگل جانا۔ (الشعراء :45) لہٰذا اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا، رسیوں، بڑے بڑے بانسوں اور لاٹھیوں کو کھا گیا۔ جونہی رسیاں اور لاٹھیاں ختم ہوئیں تو جادوگر یہ کہتے ہوئے سجدہ میں گر گئے کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ اگر وہ اس موقعہ پر اپنے رب یا رب العالمین کا لفظ استعمال کرتے تو فرعون لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا تھا کہ جادوگر مجھے ہی رب العالمین سمجھ کر سجدہ کر رہے ہیں۔ لیکن جادوگروں نے بڑی بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ یہی سچے اور خالص ایمان کی نشانی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کھوٹ اور شرک کی آمیزش نہیں ہوتی۔ جادوگر اس لیے بھی سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ جادوگروں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اپنی ناکامی دیکھ کر جادوگر سجدہ میں گِر گئے۔ جس کے لئے گرا دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا کہ جادوگر اس قدر مغلوب ہوئے کہ بے ساختہ سجدہ میں گِر پڑے۔ جونہی فرعون نے دیکھا کہ جادوگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا چکے ہیں تو اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام پر کنٹرول رکھنے کے لیے یہ کہہ کر اعلان کیا کہ تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو جو میرے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ یقیناً موسیٰ تمھارا بڑا استاد ہے جس نے تمھیں جادو سکھلایا ہے۔ اس جرم کے بدلے میں تمھارے مخالف سمت پر ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمھیں پھانسی دی جائے گی۔ تمھیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کس کا عذاب سخت اور دیر پا ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ فرعون کس قدر کذّاب اور سفاک انسان تھا کہ خود ہی جادوگروں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ جب جادوگر اپنی شکست تسلیم کرکے اپنے حقیقی رب پر ایمان لا چکے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اور اس کے وزیر، مشیر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرکے اپنے حقیقی رب پر ایمان لے آتے لیکن اس کے برعکس فرعون نے جور و استبداد کا رویہ اختیار کیا اور کہا تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ سزا دینے میں کس کا عذاب دیرپا اور سخت ہے۔ فرعون نے یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جادوگر قیامت کے عذاب سے خوفزدہ ہو کر اپنے حقیقی رب پر ایمان لائے ہیں۔ اس لیے اس نے یہ دھمکی دی کہ میں مخالف سمت پر تمھارے ہاتھ پاؤں کاٹتے ہوئے تمھیں کھجوروں کے تنوں پر پھانسی پر لٹکاؤں گا۔ پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ کس کا عذاب دیرپا اور سخت ہے کیونکہ اس زمانے میں بڑے بڑے مجرموں کو اس طرح ہی موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ اور کئی کئی دن کھجور کے تنوں پر ان کی لاشیں لٹکتی رہتی تھیں تاکہ عوام پر حکمرانوں کا رعب اور دبدبہ قائم ہوجائے۔ جادوگروں کے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پرسر عام ایمان لانے کی وجہ سے فرعون اس قدر بدحواس ہوا کہ اس نے سب کے سامنے جادوگروں کو عبرت ناک انجام کی دھمکیاں دیں لیکن ایمان لانے والے حضرات نے یہ کہہ کر اس کی دھمکیوں کو مسترد کیا کہ اے فرعون ہم تیری مرضی اور حکم کی کیونکر پرواہ کریں۔ جبکہ ہمارے پاس ہمارے رب کی طرف سے روشن دلائل آچکے ہیں۔ لہٰذا جو کچھ ہمارے ساتھ کرنا چاہتا ہے کر گزر۔ لیکن یہ حقیقت یاد رکھنا کہ تیری سزائیں اس وقت تک ہیں جب تک ہمارے جسم میں جان ہے۔ ہم ہر قسم کا خوف اور مفادات کو چھوڑ کر اپنے رب پر ایمان لائے ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ ہمارے سابقہ گناہوں اور ہم نے مجبوری کے عالم میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جادو کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کر دے۔ ہاں تو اور تیرا اقتدار تو عارضی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی جزا اور اس کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ جادوگر پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں ہمیں ان کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن فرعون کے مجبور کرنے پر موسیٰ (علیہ السلام) کے مد مقابل آکھڑے ہوئے تھے۔ جونہی انھوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا معجزہ دیکھا تو وہ اپنے رب پر ایمان لے آئے کیونکہ وہ دل کی سچائی کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ اس لیے حقیقی ایمان نے انھیں جرأت و استقامت کے اس مقام پر پہنچا دیا۔ جس کا رسمی یا نسلی طور پر ایمان لانے والا شخص تصور نہیں کرسکتا۔ حقیقی ایمان کی یہی نشانی ہے کہ وہ آدمی کو چند لمحوں میں کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ مسائل: 1۔ اہل ایمان، حق کے مقابلہ میں کسی مفاد اور ظلم کی پرواہ نہیں کرتے۔ 2۔ ایماندار شخص کو اپنے رب سے ہر قسم کے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ 3۔ مومن کے لیے جنت کی خوشخبری ہر چیز سے افضل ہوتی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے کسی اعتبار سے بھی ضعف اور فنا نہیں ہے۔