سورة مريم - آیت 61

جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ہمیشگی کی جنت، جس کا اپنے بندوں سے خدائے رحمان نے وعدہ کر رکھا ہے، اور وعدہ ایک غیبی بات کا ہے (جسے وہ اس زندگی میں محسوس نہیں کرسکتے، مگر) یقینا اس کا وعدہ ایسا ہے جیسے ایک بات وقوع میں آگئی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 61 سے 63) ربط کلام : نیک لوگوں کو جس جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس کے چند اوصاف کا تذکرہ۔ جنت کی جمع جنات ہے۔ جس کا معنٰی باغات ہیں۔ جنت وہ مقام ہے جس کے حسن و جمال اور نعمتوں کا کوئی شخص تصور نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ اس میں اپنے بندوں کو داخل فرمائے گا۔ جس کا وعدہ ہر صورت مومنوں کے ساتھ پورا ہو کر رہے گا۔ اس جنت میں کسی قسم کا لغو، پریشانی اور تکلیف نہیں ہوگی۔ اس میں ہر جنتی ہر اعتبار سے سلامت اور خوش ہوگا۔ جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے اور اس کی نعمتیں بھی سلامت رہیں گی۔ ان کے لیے صبح و شام اللہ تعالیٰ کی نعمتیں وافر ہوں گی۔ جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ جنتیوں کے لیے اعلان ہوگا جہاں چاہو جتنا چاہو، جس وقت چاہو کھاؤ اور پیو۔ صبح شام سے مراد یہ نہیں کہ انھیں صرف صبح و شام جنت کی نعمتیں دی جائیں گی۔ صبح وشام سے مراد رات اور دن کے پورے اوقات کا احاطہ کرنا ہے۔ جنت کی نعمتوں کا تصور کرنا محال ہے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِئْتُمْ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ﴾ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ خاتون جنت کا حسن وجمال : (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن﴾ [ یونس : 9۔10] ” بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے جنت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔ ان کی دعا یہ ہوگی ” کہ اے اللہ تو پاک ہے!“ اور ان کی آپس کی دعا سلام ہوگی اور ان کی دعاؤں کا خاتمہ اس بات پر ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ () کَانَ یَتَحَدَّثُ، وَعِنْدَہٗ رَجُلٌ مِّنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ، اِنَّ رَجُلًا مِّنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اسْتَأذَنَ رَبَّہٗ فِیْ الزَّرْعِ فَقَالَ لَہٗ اَلَسْتَ فِیْمَا شِئْتَ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَزْرَعَ فَبَذَرَ فَبَادَ رَالطَّرْفَ نَبَاتُہٗ وَاسْتِوَاءُ ہٗ وَاسْتِحْصَادُہٗ فَکَانَ اَمْثَالَ الْجِبَالِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی دُوْنَکَ یَابْنَ اٰدَمَ فَاِنَّہٗ لَایُشْبِعُکَ شَیْءٌ فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ وَاللّٰہِ لَاتَجِدُہُ اِلَّا قُرَشِیًا اَوْ اَنْصَارِیًّافَاِنَّھُمْ اَصْحاَبُ زَرْعٍ وَاَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِاَصْحَابِ زَرْعٍٍٍ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ)) [ رواہ البخاری : باب کلاَمِ الرَّبِّ مَعَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہوا تھا آپ اس وقت فرمارہے تھے کہ جنتیوں میں سے ایک بندے نے اپنے رب سے کھیتی باڑی کی اجازت مانگی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا۔ کیا تیرے پاس تیری پسند کی ہر چیز نہیں ہے؟ اس دیہاتی نے کہا کیوں نہیں؟ لیکن مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میں کھیتی باڑی کروں چنانچہ وہ بیج ڈالے گا۔ پلک جھپکتے ہی فصل اگ آئے گی کھیتی تیارہو جائے گی‘ اور کٹ جائے گی‘ پہاڑ کے برابر انبار لگ جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے ابن آدم! لے تیری خواہش پو ری ہوگئی۔ حقیقتاً تیرا پیٹ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ دیہاتی کہنے لگا‘ اللہ کی قسم! وہ شخص قریشی یا انصاری ہوگا کیونکہ وہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو کھیتی باڑی کرنے والے نہیں۔ نبی مکرم (ﷺ) مسکرادیے۔“ جنت عدن کی تعریف : جب کوئی چیز کسی جگہ ہمیشہ کے لیے اقامت گزیں ہوجائے تو عربی میں کہتے ہیں : ” عَدْنَ بِمَکَانِ کَذَا“ اسی لیے کان کو بھی معدن کہتے ہیں کیونکہ یہ جگہ اسی دھات کی قرار گاہ ہوتی ہے۔ جنت کے اعلیٰ درجہ کا نام بھی عدن ہے جو جنت کے وسط میں ہے اسی میں تسنیم کا چشمہ ہے۔ انبیاء کرام، شہداء، صدیقین کے لیے مخصوص ہے۔ ( وَقَالَ مَقَاتَلُ وَالْکَلْبِیْ عَدْنٌ اَعْلَی دَرَجَۃٍ فِیْ الْجَنْۃِ وَفِیْہَا عُیْنٌ تَسْنِیْمٍ وَالْجِنَانَ حَوْلَہَا) [ قرطبی : جلد8] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے۔ جس کی نعمتوں کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ 2۔ صاحب ایمان اور نیک لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جنت کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ 3۔ جنت میں کسی قسم کی لغویات، دکھ اور تکلیف نہیں ہوگی۔ 4۔ جنتیوں کے لیے ہر وقت نعمتیں حاضر رہیں گی۔ تفسیر باالقرآن : جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : 1۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : 47۔48) 2۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد :35) 3۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے پھل ہوں گے۔ (الواقعۃ : 28تا30) 4۔ جنت کے پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ:23) 5۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ ( محمد :10)