سورة مريم - آیت 36

وَإِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (مسیح کی تو ساری پکار یہ تھی) بلاشبہ اللہ ہی میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ بس اسی کی بندگی کرو، یہی (سچائی کا) سیدھا راستہ ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا ہے اور نہ ہی کسی نے اس سے جنم لیا ہے۔ وہ تو پوری مخلوق کا خالق ومالک اور بادشاہ ہے۔ اس بنا پر اس کا فرمان ہے کہ صرف میری ہی عبادت کرو۔ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت اور حقیقت بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور قدرت کے بارے میں بتلایا ہے کہ اسے کسی کو بیٹا یا شریک بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اس کا صرف حکم چلتا ہے۔ اس کی ذات کسی حوالے سے بھی کسی کی محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا نبی اکرم (ﷺ) کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ ” اللہ“ ہی میرا اور تمھارا رب ہے۔ صرف اسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے یہی صحیح عقیدہ اور صراط مستقیم ہے۔ یاد رہے ” رَبّ“ کا معنٰی ہے، ہر چیز کو پیدا کرنے والا، ہر ذی روح کو روزی پہنچانے والا، اور زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک، بادشادہ اور ہر چیز پر ہر اعتبار سے مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ایک ہی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو تمہارا اور میرا رب ہے۔ یاد رہے کہ وہ میرا اور تمہارا باپ نہیں کہتے تھے جس طرح انجیل میں ان کی طرف بار بار اللہ تعالیٰ کے بارے میں باپ کے الفاظ منسوب کیے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ میرا اور تمہارے رب کے مقدس اور واضح الفاظ استعمال فرماتے تاکہ لوگوں کو عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور صرف اسی ایک کی عبادت کرنا صراط مستقیم ہے۔ پرانے عہد نامہ کی کتاب استثناء میں مرقوم ہے قوم اسرائیل کا مشہور کلمہ شمع (Shama) (عربی : اسمع) اپنے مفہوم کے اعتبار سے اسلام کے کلمۂ شہادت اور قرآن مجیدکی سورۃ اخلاص کی پہلی آیت سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ خصوصًا اپنے عربی و عبرانی متن میں اس کے الفاظ مبارک اس آیت کی باز گشت ہیں ملاحظہ فرمائیے : عربی : اِسْمَعْ یَااِسْرَائِیْلُ اِن الرَّبَ اِلٰہُنَا رَبَّ وَاحِدٍ عبرانی :Shama Yisrael Adonoielohem.Adonoiehod شمع یاسرائیل ادونائی الوھیم ادونائی احاد [ بائبل عبرانی واردو، کتاب استثناء6: 4۔ الکتاب المقدس عربی 10ط۔ بیروت 1899ء) پرانے اور نئے عہد نامہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے باب ہفتم۔] ” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا ایک ہی خدا ہے۔“ کتاب استثناء میں دوسری جگہ ہے : ” خدا وند ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔“ [ استثناء : 4، 35] پرانے عہد نامہ میں ہے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی دعا میں یہ الفاظ موجود ہیں : ” تو ہی واحد خدا ہے۔“ [ زبور :86: 10] عہد نامہ قدیم میں ایک اور جگہ لکھا ہے : ” خدا وند فرماتا ہے میں ہی خدا ہوں مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہے اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔۔“ [ یسعیاہ :43: 10، 12] یعنی اوّل وآخر اس کی ذات ہے۔ نیز فرمایا :” میں خدا وند سب کا خالق ہوں، میں ہی اکیلا آسمان کو تاننے اور زمین کو بچھانے والا ہوں، کون میرا شریک ہے۔“ [ یسعیاہ :44: 24] برناباس۔ باب 11میں ہے : تو اس خدا کی عبادت کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور وہی تجھے صحت عطا کرے گا کیونکہ میں ویسا ہی ایک انسان ہوں جیسا تو ہے۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے رہا ہو کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ تفسیر بالقرآن: صراط مستقیم : 1۔ کیا صراط مستقیم پر چلنے والا اور نہ چلنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ (النحل :76) 2۔ جس شخص نے اللہ کی رسی کو پکڑلیا اس نے صراط مستقیم کی رہنمائی پالی۔ (آل عمران :101) 3۔ صراط مستقیم یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ (آل عمران :51) 4۔ اللہ واحد کی عبادت کرنے والا ہی صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس :61)