وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
اس پر سلام ہو (یعنی سلامتی ہو) جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرا اور جس دن پھر زندہ اٹھایا جائے گا۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پر پیدائش سے لے کر تادم واپیس اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں۔ یہ مسلمّہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے پیغمبر دنیا میں جلوہ گر فرمائے ان کی پیدائش سے لے کر وفات تک اور قبر سے لے کر حشر تک، حشر سے لے کر جنت الفردوس میں پہنچنے تک ہر لمحہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول رہتا ہے۔ لیکن بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) کے خصوصی حالات کے پیش نظر ان کے بارے میں خاص طور پر ذکر فرمایا ہے کہ ان پر ان کی پیدائش سے لے کر ان کی موت اور دوبارہ زندہ ہونے تک اللہ کی رحمت ان کے شامل حال رہی اور رہے گی۔ ان میں بالخصوص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے کہ سلام ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا۔ جس دن اسے موت آئے گی اور جس دن وہ اٹھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ انسانی زندگی میں تین مرحلے ایسے ہیں جن میں کسی نبی، ولی، امیر، فقیر، شاہ و گدا، اعلیٰ اور ادنیٰ کو اختیار نہیں ہوتا ان اوقات میں وہ ناتواں اور بالکل بے بس ہوتا ہے۔ 1۔ ولادت کے وقت ہر نومولود اس قدر نازک اندام، ناتواں اور بے بس ہوتا ہے کہ پھول کی پنکھڑی کی طرح معمولی سے معمولی سختی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ 2۔ موت کا وقت اس قدر شدید اور سخت ہوتا ہے کہ بہادر سے بہادر انسان گھبراہٹ میں مبتلا ہوجاتا ہے (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِنَّ مِنْ نِّعَمِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) تُوُفِّیَ فِیْ بَیْتِیْ وَفِیْ یَوْمِیْ وَبَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ۔۔ فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْہِ فِی الْمَاءِ فَیَمْسَحُ بِھِمَا وََجْہَہٗ وَیَقُوْلُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٌ ثُمَّ نَصَبَ یَدَہٗ فَجَعَلَ یَقُوْلُ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی حَتّٰی قُبِضَ وَمَالَتْ یَدُہٗ۔) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (ﷺ) وَوَفَاتِہِ ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بے پناہ انعامات میں سے ایک یہ ہے‘ کہ رسول اکرم میرے گھر میں‘ میری باری کے دن‘ میرے سینے اور حلق کے درمیان فوت کیے گئے۔۔ آپ پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ ملتے رہے اور کہتے لاَ اِ لٰہ اِ لَّا اللّٰہ بلا شبہ سکرات موت بر حق ہیں۔ پھر اپنا ہاتھ بلند کیا اور رفیق اعلیٰ کی دعا کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا۔ 3۔ حشرکا دن سخت ہوگا۔ ” کوئی دوست کسی دوست کا پرسان حال نہ ہوگا۔ حالانکہ ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہونگے۔ گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دے دے یعنی اپنے بیٹے اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا۔ اور جتنے آدمی زمین میں ہیں غرض سب کچھ دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے چھڑا لے۔[ المعارج : 10تا14]