سورة مريم - آیت 5

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے (کہ نہیں معلوم وہ کیا کریں) اور میری بیوی بانجھ ہے (اس لیے بظاہر حالات اولاد کی امید نہیں) پس تو اپنے خاص فضل سے مجھے ایک وارث بخش دے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 5 سے 6) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھل دیکھ کر اسی وقت اور اسی جگہ نیک بیٹے کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو فرشتے کے ذریعہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی۔ یہاں زکریا (علیہ السلام) کی دعا کے تذکرہ میں یہ اضافہ موجود ہے کہ انھوں نے جب دعا کی تو وہ آہستہ الفاظ یعنی دبی زبان میں دعا کر رہے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی موجودگی اور انتہائی غم، بے بسی کی وجہ سے انھوں نے دل ہی دل میں دعا کی۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے انداز سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ دعا کرتے ہوئے آدمی کو اپنے رب کے حضور اپنی کم مائیگی اور بے بسی کا الفاظ میں بھی اظہار کرنا چاہیے۔ اس سے ایک طرف انسان کی طبیعت میں رقت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف عقیدہ کی پختگی کا اظہار ہوتا ہے کہ میں محتاج ہوں اور میرا رب داتا ہے جس سے دعا کی قبولیت میں یقینی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے جب اس کیفیت کے ساتھ عاجزی اور بے بسی کی دعا کی الٰہی مجھے بیٹا عطا فرما جو تیرا محبوب اور میرا خلف الرشید بنے تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کی زوجۂ مکرمہ کو صحت عطا کرتے ہوئے یحییٰ (علیہ السلام) عنایت فرمائے۔ جن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے والے، اپنے رب کی انتہائی توجہ اور عاجزی کے ساتھ عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے بہت ہی ڈرنے والے تھے۔ دعا میں حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے اور آل یعقوب کے وارث کی حیثیت سے بیٹا طلب کیا تھا۔ وراثت پر بحث کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے یہاں وارثت سے مراد دنیوی وراثت نہیں ہے کیونکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) محنت مزدوری کرکے اپنی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک غریب پیغمبر کو اپنی دنیوی وراثت کی کیا فکر ہو سکتی ہے ؟ یہاں وراثت سے مراد نبوت کا علم اور مشن ہے۔ جس کے انبیاء (علیہ السلام) داعی اور وارث ہوتے ہیں۔ اسی لیے زکریا (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں آل یعقوب کا ذکر کیا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) خاندانی طور پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے تعلق رکھتے تھے۔