يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
اے پیغمبر ! تم سے لوگ شراب اور جوے کی بابت دریافت کرتے ہیں ان سے کہہ دو، ان دونوں چیزوں میں نقصان بہت ہے اور انسان کے لیے فائدے بھی ہیں۔ لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے اور تم سے پوچھتے ہیں (راہ حق میں خرچ کریں تو) کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دو جس قدر (تمہاری ضروریات معیشت سے) فاضل ہو۔ دیکھو اللہ اس طرح کے احکام دے کر تم پر اپنی نشانیاں واضح کردیتا ہے تاکہ دنیا اور آخرت (دونوں) کی مصلحتوں میں غور و فکر کرو
فہم القرآن : ربط کلام : درمیان میں مومنوں کا کردار ذکر کرنے کے بعد اب پھر ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ خمر کا معنی : عربی میں ہراس چیز کو خمر کہتے ہیں جو پردہ ڈال دے، اسی مناسبت سے عورتوں کی اوڑھنیوں کو بھی قرآن مجید میں خمر کہا گیا ہے۔[ النور :31] کیونکہ عورت اس سے اپنا سر، چہرہ اور جسم ڈھانپتی ہے۔ شراب کو خمر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کی عقل وفکر پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اسلام کے دوسرے ضابطوں اور قوانین کی طرح شراب کے حکم امتناعی کی تکمیل بھی تدریجًا نازل ہوئی۔ یہاں حرمت شراب کا پہلا حکم جاری کرتے ہوئے لوگوں کو نفع اور نقصان کی بنیاد پر سمجھایا جارہا ہے کہ شراب اور جوئے میں عارضی اور معمولی فائدے بھی ہیں لیکن دوررس نتائج کے اعتبار سے ان کے نقصانات ان کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر شراب پینے سے عارضی طور پر جسم میں قوت وحرکت اور دلیری پیدا ہوتی ہے تو شراب کانشہ ختم ہونے کے بعد آدمی اتنی ہی کمزوری محسوس کرتا ہے۔ شراب کا عادی شخص اپنی عمر سے کہیں پہلے بوڑھا ہوجاتا ہے۔ آدمی شراب پی کر ایسی حرکات کرتا اور خرافات بکتا ہے کہ جس کا صحیح حالت میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے شراب کسی مذہب میں بھی جائز قرار نہیں دی گئی۔ شراب کے بارے میں دور حاضر کے ڈاکٹر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس کے فائدے نہایت ہی عارضی اور معمولی ہیں لیکن جسمانی اور معاشرتی نقصان اور مضمرات لامحدود اور ناقابل تلافی ہیں۔ رسول معظم (ﷺ) نے شراب کو علاج کے طور پر استعمال کرنے سے منع ہی نہیں فرمایا ہے بلکہ اسے بیماری قرار دیتے ہوئے ابتداءً اس میں استعمال ہونے والے برتنوں سے بھی منع فرمادیا۔ (أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَیْدِ الْجُعْفِیَّ (رض) سَأَلَ النَّبِیَّ (ﷺ) عَنِ الْخَمْرِ فَنَھَاہُ أَوْکَرِہَ أَنْ یَّصْنَعَھَافَقَالَ إِنَّمَا أَصْنَعُھَا للدَّوَآءِ فَقَالَ إِنَّہٗ لَیْسَ بِدَوَاءٍ وَلٰکِنَّہٗ دَاءٌ) [ رواہ مسلم : کتاب الأشربہ، باب تحریم التداوی بالخمر] ” طارق بن سوید جعفی (رض) نے نبی (ﷺ) سے شراب کے متعلق سوال کیا آپ نے اسے استعمال کرنے سے منع کیا یا ناپسند کیا تو اس نے کہا میں اسے بطور دوا استعمال کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا دوا نہیں یہ تو بیماری ہے۔“ رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان کی تائید میں حضرت عثمان (رض) نے تاریخ کا ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ شراب سے بچو ! کیونکہ یہ ام الخبائث ہے۔ تم سے پہلے ایک آدمی بڑا عبادت گزار گزرا ہے۔ اس سے ایک بدکار عورت کو محبت ہوگئی اس نے اپنی لونڈی کو یہ کہہ کر اس آدمی کی طرف بھیجا کہ ہمیں کسی معاملہ میں آپ کی گواہی چاہیے۔ وہ آدمی اس کی لونڈی کے ساتھ چل پڑا۔ جس دروازے سے داخل ہوتا اسے بند کردیا جاتا یہاں تک کہ وہ ایک خوبصورت عورت تک جا پہنچا۔ جس کے پاس ایک بچہ اور شراب کا پیالہ تھا۔ اس عورت نے کہا : اللہ کی قسم! میں نے تجھے شہادت دینے کے بجائے اپنے ساتھ بدکاری کرنے یاشراب کا پیالہ پینے یا بچہ قتل کرنے کے لیے بلایا ہے۔ اس نے کہا مجھے شراب پلادوجب اس نے شراب پی لی تو نشہ کی حالت میں اس نے عورت کے ساتھ زنا بھی کیا اور بچہ بھی قتل کردیا۔[ رواہ النسائی : کتاب الأشربۃ‘ باب ذکر الآثام المتولدۃ عن شرب الخمرالخ] (عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ (رض) قَالَ کُنَّا نُؤْتٰی بالشَّارِبِ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) وَإِمْرَۃِ أَبِیْ بَکْرٍوَصَدْرًا مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَفَنَقُوْمُ إِلَیْہِ بِأَیْدِیْنَا وَنِعَالِنَا وَأَرْدِیَتِنَا حَتّٰی کَانَ آخِرُإِمْرَۃِ عُمَرَ فَجَلَدَ أَرْبَعِیْنَ حَتّٰی إِذَا عَتَوْا وَفَسَقُوْا جَلَدَ ثَمَانِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب الضرب بالجرید والنعال] ” حضرت سائب بن یزید (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم (ﷺ) کے زمانے اور ابو بکر و عمر (رض) کے ابتدائی دور میں شرابی پکڑا دیا جاتاہم اسے اپنے ہاتھوں، جوتوں اور چادروں کے ساتھ مارتے اور جب عمر (رض) کی خلافت کا آخری دور آیا تو انہوں نے چالیس کوڑے مارے اور جب لوگ شراب نوشی میں بڑھ گئے تو پھر عمر (رض) نے اسی کوڑے مارے۔“ جوئے کو میسر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے میسر کالفظی معنی آسان ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جوا کھیلنے والا بغیر کسی جسمانی اور ذہنی محنت کے مال حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عرب کے لوگ بسا اوقات اس لیے بھی جوا کھیلتے تھے کہ اس سے حاصل شدہ رقم غریبوں میں تقسیم کردی جائے۔ جس طرح آج کل کئی فن کار ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم قحط زدہ یا معذور اور بیمار لوگوں پر خرچ کردیتے ہیں۔ جوئے کے بارے میں بھی اس قسم کے منافع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس میں بھی نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کاروبار میں رقم لگاتے وقت آدمی کے ذہن میں نفع اور نقصان دونوں ہوتے ہیں۔ پھر کاروبار میں تاجر سوچ وبچار کرتے ہوئے نقصان سے بچنے کے لیے محنت بھی کرتا ہے اگر اسے ایک کاروبار میں مسلسل نقصان ہورہا ہو تو وہ اسے چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ محنت ومشقت سے حاصل ہونے والی رقم آدمی سمجھ سوچ کر خرچ کرتا ہے۔ جب کہ جوئے میں یہ تمام صورتیں مفقود ہوتی ہیں۔ جوئے پر رقم لگانے والا جواری نقصان کے بجائے فائدے کے بارے میں بڑا جذباتی ہوتا ہے۔ جوئے سے حاصل شدہ رقم اکثر اللّے تللّوں پر خرچ ہوتی ہے۔ جوا کھیلنے والا ہارنے کے باوجود مسلسل قسمت آزمائی کرتا چلا جاتا ہے۔ کاروبار میں نقصان یا مندا ہونے میں آدمی جذباتی ہونے کے بجائے سوچ وبچار کرتا ہے اور بسا اوقات فیکٹری یا کاروبار کو کچھ عرصہ کے لیے بند کردیتا ہے۔ جوئے میں یہ صورت نہیں ہوتی۔ جوّے باز جیتنے کے لالچ سے چند لمحوں میں ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کاروبار میں حاصل ہونے والا منافع مزید تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ جوئے سے حاصل ہونے والی رقم سے کبھی بھی لوگ کاروبار کرتے نہیں دیکھے گئے۔ اکثر جوا باز جیت جائیں تو عیاشی کے طور پر اور اگر ہار جائیں تو غم دور کرنے کے لیے شراب پیتے ہیں۔ اس وجہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر جوئے اور شراب کا ذکر اکٹھا کیا گیا ہے۔ پھر شراب اور جوئے کی وجہ سے باہم نفرتیں اور لڑائی جھگڑے پید اہوتے ہیں ان اسباب کی بنا پر مسلمانوں کو شراب نوشی اور جوا بازی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی سورت کی آیت ٢١٥ میں سوال یہ تھا کہ کیا اور کہاں خرچ کریں ؟ اب سوال کیا جارہا ہے کہ کتنا خرچ کیا جائے ؟ جوابًا ارشاد ہوتا ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد۔ اس فرمان سے اشتراکی نظام جس کی تعریف یہ ہے کہ ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے۔ اشتراکی نظام حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس کے حاملین نے اسلام کے معاشی نظام کی غلط توجیہ کرتے ہوئے اشتراکی نظام کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کی توجیہ اسلام اور نظام فطرت کے خلاف تھی۔ جس کی وجہ سے چند ہی سالوں میں وہ نظام نہ صرف اپنے انجام کو پہنچا بلکہ روس جیسی عظیم مملکت اس نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے تباہی کے گھاٹ اتر گئی۔ سوویت یونین جو دنیا میں دوسری سپر پاور سمجھی جاتی تھی آج اپناوجود سلامت رکھنے کے لیے اپنے مخالفوں سے قرض کی بھیک مانگنے پر مجبو رہے۔ دراصل ﴿قُلِ الْعَفْوَ﴾ کا حکم ایک جنگ کے دوران نازل ہوا تھا اور اسی کی روشنی میں دوران سفر رسول محترم (ﷺ) نے لوگوں کو توجہ دلائی کہ جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد اسباب ہوں۔ وہ دوسرے بھائی کو عنایت کردے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ فِیْ سَفَرٍ مَعَ النَّبِیِّ (ﷺ) إِذْ جَآءَ رَجُلٌ عَلٰی رَاحِلَۃٍلَہٗ قَالَ فَجَعَلَ یَصْرِفُ بَصَرَہٗ یَمِیْنًا وَشِمَالًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ کَانَ مَعَہٗ فَضْلَ ظَھْرٍ فَلْیُعِدْبِہٖ عَلٰی مَنْ لاَّ ظَھْرَ لَہٗ وَمَنْ کَانَ لَہٗ فَضْلٌ مِنْ زَادٍفَلْیُعِدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَا زَادَ لَہٗ قَالَ فَذَکَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَکَرَ حتّٰی رَأَیْنَآ أَنَّہٗ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِّنَّا فِیْ فَضْلٍ) [ رواہ مسلم : کتاب اللقطہ، باب استحباب المؤساۃ بفضول المال] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی (ﷺ) کے ساتھ تھے کہ اچانک ایک آدمی اپنی سواری لے کر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا : جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں مگر اس کے پاس سفر کا زائد خرچ ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔ راوی کہتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے مال کی اور بھی کئی اقسام کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ ضرورت سے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔“ ہنگامی حالات میں ذمہ دار قومیں ایسا ہی رویّہ اختیار کرتی ہیں۔ کیونکہ دشمن کے مقابلے میں جب تک تن من دھن اور ہر چیز نہ جھونک دی جائے کامل اور مکمل فتح حاصل نہیں ہوا کرتی۔ ” عَفْو“ کا معنی جن لوگوں نے من مرضی سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے فرد کی ضروریات کا تعین کیا جاسکے۔ کیونکہ اپنی ضروریات کو جو آدمی خود سمجھتا ہے کوئی دوسراشخص یا حکومت نہیں سمجھ سکتی۔ ایک آدمی کا آنا جانا اس قدر کم ہے کہ اسے سائیکل کی بھی ضرورت نہیں۔ اس کے مقابلے میں ایسا شخص ہے جس کے گھر کے ایک ایک فرد کو سواری کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک آدمی کپڑوں کے دو جوڑوں میں گزارا کرسکتا ہے جب کہ دوسرے کو ہر روز لباس تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کسی کی ضرورت کا تعین کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ البتہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کو سادگی اختیار کرتے ہوئے اپنے اعزاء و اقرباء اور پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ عفو سے جن لوگوں نے اجتماعی معیشت کا تصور لیا ہے وہ ہر لحاظ سے اسلام کے معاشی نظام کے متصادم ہے۔ کیونکہ اگر ضرورت سے زائد چیزیں حکومت کی ملکیت قرار دے دی جائیں تو قرآن و حدیث میں زکوٰۃ اور وراثت کے احکامات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ اپنے احکام کو اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ ان پر غوروفکر کیا جائے۔ مسائل : 1۔ شراب اور جوئے میں فائدے کی نسبت نقصانات زیادہ ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : شراب وجوا کے نقصانات : 1۔ شراب، جوئے کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ (البقرۃ :219) 2۔ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ (النساء :43) 3۔ شراب اور جوا حرام ہیں۔ (المائدہ :90) 4۔ شراب وجوا دشمنی کا سبب اور اللہ کے ذکر میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ (المائدۃ:91)