سورة الكهف - آیت 102

أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِن دُونِي أَوْلِيَاءَ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے کیا انہوں نے خیال کیا ہے ہمیں چھوڑ کر ہمارے بندوں کو اپنا کارساز بنا لیں؟ (انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ) ہم نے کافروں کی مہمانی کے لیے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : کفار اور اللہ تعالیٰ کو بھول جانے والوں کا انجام۔ جس طرح پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہ سورت اہل مکہ کے سوالات کے جواب میں نازل ہوئی تھی۔ اہل مکہ کے سوالات کا جواب دینے کے بعد سورۃ کے اختتام میں انھیں براہ راست مخاطب کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے بندوں کو حاجت روا، اور مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جہنم کو مہمان نوازی کے طور پر تیار کر رکھا ہے۔ اس مختصر فرمان میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1۔ شرک کرنے والوں کو کافر کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے۔ 2۔ جن فوت شدگان کو یہ لوگ حاجت روا، اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں۔ ان کے لیے قرآن مجید میں کئی مرتبہ اولیاء کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے مشہور اور مستند معانی ہیں۔ نگران، مددگار، دوست اور محبوب آقا۔ ظاہر ہے کہ جن فوت شدگان کو پکارا جاتا ہے ان کے بارے میں مشرکین ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے جو قیامت کے دن اپنی عبادت کا صاف طور پر انکار کریں گے۔ یعنی ایسے بزرگ جو مواحد تھے اور اپنی زندگی میں شرک کی مذمت کرتے تھے لیکن ان کے بعد مشرک انہیں مشکل کشا، حاجت روا کہہ کر پکارتے رہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کو شرک کے ساتھ اس قدر نفرت ہے کہ اس نے مشرکین کے لیے جہنم کو میزبانی کے طور پر تیار کر رکھا ہے۔ ان الفاظ سے اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاں مشرکین کا کیا مقام ہے اس لیے اس کا فرمان ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُشْرِکْ باللَّہِ فَقَدِ افْتَرَی إِثْمًا عَظِیمًا﴾[ النساء :48] ” یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کرنے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہتان باندھا اور بہت بڑا گناہ کیا۔“ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا باٰ یَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَاب السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ﴾ [ الاعراف :40] ” بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور انہیں قبول کرنے سے تکبر کیا ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر جائے اور ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔“ ﴿إِنَّہُ مَنْ یُشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہ النَّارُ وَمَا للظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ﴾ [ المائدۃ:72] ” بیشک جو بھی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔“ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا مشرک جن کو پکارتے ہیں : 1۔ کیا کافر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا کار ساز بنا لیں گے۔ (الکہف :102) 2۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھاری طرح کے ہی بندے ہیں۔ (الاعراف :194) 3۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (الاعراف :197) 4۔ سوال کیجیے کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انھوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے ؟ (الاحقاف :4) 5۔ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج :73) 6۔ کیا تم بعل (بت) کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑتے ہو۔ (الصّٰفٰت :125)