سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں (علم و بصیرت کی کتنی روشن نشانیاں دی تھیں؟ اور جو کوئی خدا کی نعمت پا کر پھر اسے (محرومی و شقاوت) سے بدل ڈالے تو یاد رکھو خدا کا (قانون مکافات) بھی سزا دینے میں بہت سخت ہے
فہم القرآن : (آیت 211 سے 212) ربط کلام : بنی اسرائیل کے مطالبات کے بعد ان سے سوال کیا گیا کہ تم مزید معجزات اور دلائل کا مطالبہ کرتے ہو یہ بتاؤ کہ تم نے پہلے دلائل اور معجزات کا کیا مثبت جواب دیا ہے؟ دراصل تم دنیا پر فریفتہ ہونے کی وجہ سے حق سے جی چراتے ہودنیا تو عارضی ہے جب کہ آخرت ہمیشہ کے لیے ہے۔ مکہ والوں کے سامنے بے شمار حقائق اور دلائل واضح ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجودوہ مزید براہین کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اگر انہیں مزید دلائل کی ضرورت ہے تو بنی اسرائیل کے منصف مزاج لوگوں کو خاص کر ان میں جو مسلمان ہوچکے ہیں ان سے پوچھیں کہ جب ان کے آباء و اجداد کو لاتعداد نعمتوں سے نوازا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یکے بعد دیگرے ایک سے بڑھ کر ایک معجزات پیش کیے تو کیا اس کے بعد انہوں نے حق قبول کرلیا تھا؟ نہیں! بلکہ انہوں نے حق قبول کرنے کے بجائے نعمتوں کی ناقدری اور دین کو تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں کیں‘ انہیں فرعون کے مظالم سے نجات ملی تو برسر اقتدار آکر وہی ظلم روا رکھے‘ فرعون کے غرق ہونے کے بعد دریا عبور کرکے ابھی راستے ہی میں تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بتوں کے سامنے اعتکاف کرنے اور ان کی عبادت کی اجازت مانگنے لگے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) طورپرگئے تو بچھڑے کو معبود بنالیا، بیت المقدس میں فتح کی ضمانت ملنے کے باوجود داخلے سے انکار کردیا، وادئ تیہ میں چالیس سال کی سزا بھگتنے کے بعد جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تو عاجزی اور استغفار کرنے کے بجائے حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں تبدیل کرکے اللہ سے بخشش مانگنے کے بجائے گندم کا مطالبہ شروع کردیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم اور دین کی شکل بگاڑنے کی کوششیں کی۔ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کا حوالہ دے کر منافقوں‘ مشرکوں اور اہل کتاب کو سمجھایا جارہا ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری اور اس کو تبدیل کرے گا‘ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں اس کے لیے بربادی ہوگی۔ یہاں نعمت سے مراد دین حق کی نعمت ہے۔ دین حق کی بے حرمتی اور ناقدری کے بنیادی اسباب میں سب سے بڑا سبب دنیا کی زیب وزینت پر منکرین آخرت کافریفتہ ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا سب کے لیے حسین اور پر کشش ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن نعمتوں کو اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے اور بےدین انسان اسی پر قانع ہو کر اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔ مومن ایمان کی دولت کے بدلے دنیا کی دولت کو ترجیح نہیں دیتا‘ چاہے دنیا کی نظر میں اسے کروڑوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے اور اپنے ہم عصروں اور برادری سے کتنا ہی پیچھے رہنا پڑے۔ جب کہ کافر دنیا کی زیب وزینت پرنظر جمائے ہوتا ہے۔ وہ چند دمڑیوں کی خاطر ایمان اور جاہ و حشمت کے لیے اپنی غیرت وضمیر کا سودا کرنے سے باز نہیں آتا۔ ایسے دنیا پرست کی نظر میں مومن کا کردار کس طرح معیاری اور قابل رشک ہوسکتا ہے ؟ اسی بنا پر وہ مومنوں کو بے وقوفی اور تمسخر کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان احمقوں اور رذیلوں کی پیروی کریں ؟ کیا یہی لوگ انقلاب برپا کریں گے ؟ اس فرمان میں واضح کیا جا رہا ہے کہ ایمان کے بغیر دنیا کی نعمتوں اور برتری میں اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہے۔ وہاں تو ایمان کی نعمت اور خوفِ الٰہی کی دولت ہی کام آئے گی۔ اسی کی بدولت مومن آخرت میں کفار سے ممتاز اور بلند وبالا ہوں گے۔ دنیا میں مومن پر حرام کمانے اور کھانے کی پابندی تھی۔ جس کی وجہ سے کفار اور حرام خور لوگ مومنوں سے دنیاوی ترقی میں آگے نکل گئے لیکن قیامت میں مومنوں کو بے انتہا رفعت وعظمت اور بے حساب رزق سے نواز اجائے گا اور منکرین کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسائل : 1۔ دین کو تبدیل کرنے والا سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔ 2۔ کفار کے لیے دنیا دلفریب بنادی گئی ہے۔ 3۔ صاحب تقو ٰی ایمان دار قیامت کے دن کافروں سے بلند ہوں گے۔ 4۔ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جتنا اور جسے چاہے عطا فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بدلنے کی سزا : 1۔ نعمت تبدیل کرنے والے کو سخت ترین عذاب ہوگا۔ (البقرۃ :211) 2۔ نعمت تبدیل کرنے والا دنیا وآخرت میں ذلیل ہوگا۔ (البقرۃ:61) 3۔ دین اسلام کے سوا دوسرا دین تلاش کرنے والے سے دوسرا دین قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران :85)