وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
اور جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اس کی محبت میں سرشار ہیں تو انہی کی صحبت پر اپنے جی کو قانو کرلو، ان کی طرف سے کبھی تمہاری نگاہ نہ پھرے کہ دنیوی زندگی کی رونقیں ڈھونڈنے لگو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا (یعنی ہمارے ٹھہرائے ہوئے قانون نتائج کے مطابق جس کا دل غافل ہوگیا) اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑگیا تو ایسے آدمی کی باتوں پر کان نہ دھرو۔ اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : کفار کے بے جا اعتراضات اور مطالبات پر آپ (ﷺ) کو صبر کی تلقین اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم : کفار مکہ کا مسلسل مطالبہ تھا کہ اگر قرآن مجید میں ردوبدل کردیا جائے تو ہم تجھ پر ایمان لانے کے لیے تیار ہیں۔ جب یہ مطالبہ کلیتاً مسترد کردیا گیا تو انہوں نے یہ مطالبہ کرڈالا کہ جب ہم آپ کے پاس حاضر ہوں تو جو لوگ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے کمزور ہیں وہ آپ کی مجلس میں نہیں ہونے چاہییں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پہلے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اس میں ردوبدل کا خیال کریں کہیہ لوگ اس پر راضی ہوجائیں تو یادرکھنا ایسی صورت میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ جہاں تک ان لوگوں کا یہ مطالبہ ہے کہ آپ اپنی مجلس میں کمزور مسلمانوں کو نکال باہر کریں۔ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ رکھیں جو صبح وشام اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ جو لوگ دنیا کی زیب وزینت میں محو ہو کر اپنے رب کی یاد سے غافل ہوچکے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بات کبھی نہیں ماننا اور نہ ہی ان کی جاہ، شوکت دیکھ کر کسی حسرت کا اظہار کرنا چاہیے۔ سورۃ آل عمران کی آیت 196، 197 میں فرمایا کہ اے نبی! شہروں میں کفار کا چلنا پھرنا آپ کو دھوکہ میں مبتلانہ کردے۔ یہ تو دنیا کا معمولی سامان ہے بالآخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جو بدترین رہنے کی جگہ ہے۔ یہ انجام اس لیے ہوگا کہ ایسے لوگوں نے اپنے نفس کو خدا بنا رکھا ہے اور دنیا کے بندے ہو کر رہ گئے ہیں یہ پرلے درجے کی گمراہی ہے حالانکہ دنیا کی حقیقت یہ ہے۔ دنیا کی حقیقت : ﴿إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ أَنْزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا یَأْکُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتّٰی إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ أَہْلُہَا أَنَّہُمْ قَادِرُوْنَ عَلَیْہَا أَتٰہَا أَمْرُنَا لَیْلًا أَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنَاہَا حَصِیْدًا کَأَنْ لَمْ تَغْنَ بالْأَمْسِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾[ یونس :24] ” دنیا کی زندگی کی مثال تو بس اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی سے (اگنے والی چیزیں) خوب گنجان ہوگئیں، جس سے انسان اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین شاداب اور خوب مزین ہوگئی اور اس کے رہنے والے گمان کر بیٹھے کہ یقیناً وہ اس پر قادر ہیں رات یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اسے جڑ سے کاٹی ہوئی کردیا، جیسے وہ کل تھی ہی نہیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے نشانیاں مفصل بیان کرتے ہیں جو سوچتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ آپ (ﷺ) کو نیک لوگوں کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ 2۔ دنیا عارضی ہے۔ 3۔ اللہ کے نافرمانوں کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے۔ 4۔ اپنی یا لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اپنی یا کسی کی غلط خواہش کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے : 1۔ اس شخص کا کہنا نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے۔ (الکھف :28) 2۔ آپ (ﷺ) ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خوا ہش کے پیچھے نہ لگیں۔ (ص :26) 3۔ اس سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اپنی خواہشات کے تابع ہوچکا ہے۔ (القصص :50) 4۔ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو گمراہ ہوچکے ہیں۔ (المائدۃ:77) 5۔ فرما دیجیے! میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا اگر پیروی کروں تو میں گمراہ ہوجاؤں گا۔ (الانعام :56) 6۔ آپ (ﷺ) ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ کیونکہ آپ کے پاس حق آچکا ہے۔ (المائدۃ:49)