سورة الإسراء - آیت 111

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور کہہ ساری ستائشیں اللہ کے لیے ہیں جو نہ تو اولاد رکھتا ہے نہ اس کی فرمانروائی میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ کوئی ایسا ہے کہ اس کی درماندگی کی وجہ سے اس کا مددگار ہو (وہ ان ساری باتوں سے بے نیاز ہے) اس کی بڑائی کی پکار بلند کر، جیسی پکار بلند کرنی چاہیے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اس سورۃ مبارکہ کی ابتداء ﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ﴾ کے الفاظ سے ہوئی۔ جس کا معنیٰ ہے وہ ذات جو ہر قسم کے عیب، کمزوری اور شرک سے پاک ہے۔ سورۃ کا اختتام بھی اسی بات پر ہورہا ہے کہ اللہ وہ ہے جو ہر قسم کے شرک اور کمزوری سے پاک ہے۔ عربی گرائمر سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ لفظ ” حمد“ کے ساتھ ” ال“ شامل ہو تو یہ استغراق کا فائدہ دیتا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے کہ تمام قسم کی تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔” حمد“ میں دوسرے کی ذات کی بڑائی اور اس کے احسانات کا احساس اور اعتراف پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ابتداء میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے۔ کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے رب کی تعریف اور حمدو شکر کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اے انسان ! اشرف المخلوقات ہونے کے حوالے سے تجھے بھی ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ شکر گزار لوگ ہی اللہ کے تابع فرماں ہوتے ہیں۔ حمد کی فضلیت اور فرضیت کے پیش نظر رسول کریم (ﷺ) کو ارشاد ہوا ہے۔ کہ آپ دنیا والوں کو بتلائیں کہ ہر قسم کی حمدوستائش اللہ کے لیے ہے۔ جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی اسکی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ نہ اس میں کسی قسم کا ضعف اور کمزوری ہے۔ کہ جس بناء پر اسے کسی مددگار کی مدد کی ضرورت پیش آئے۔ وہ اپنی ذات اور صفات میں بڑا ہی بلندوبالا ہے۔ اس لیے اس کی بڑائی کا اعتراف اور تذکرہ کرتے رہیے۔ یہاں ہر قسم کے شرک کی نفی کرنے کے ساتھ ” اللہ“ کی کبریائی کے بیان اور اعتراف کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی حکم سورۃ المدثرکی ابتدائی آیات میں ہے جو نبی کریم (ﷺ) پر نازل ہونے والی دوسری وحی ہے، اس کی تیسری آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کی کبریائی کا ذکر کیجیے۔ یاد رہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا احساس پید اہوجائے۔ تو بیک وقت اس کے تین فائدے ہوتے ہیں۔ 1۔ انسان میں فخرو غرور کی بجائے انکساری اور عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ جس کی بناء پر آدمی کا اخلاق اور دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ بہتر ہوتا ہے۔ 2۔ انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کی بجائے اسکی بارگاہ میں جھکتا ہے۔ 3۔ مسلمان کے دل میں اللہ کی کبریائی کا تصور مضبوط ہوجائے تو مسلمان دشمن کے مقابلے میں بہادر ثابت ہوتا ہے۔ حمد وثناء کی فضیلت : ﴿قَال النَّبِیُّ () أَفْضَلُ الْکَلاَمِ أَرْبَعٌ سُبْحَان اللَّہِ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ، وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ [ رواہ البخاری : باب إِذَا قَالَ وَاللَّہِ لاَ أَتَکَلَّمُ الْیَوْمَ ] ” نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا بہترین کلمات چارہیں۔ 1۔ سبحان اللہ۔ 2۔ الحمداللہ۔ 3۔ لا الٰہ الا اللہ۔ 4۔ اللہ اکبر مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی ہر حال میں تعریف کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعتراف اور اس کی بڑائی بیان کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی تعریف اور بڑائی : 1۔ کہہ دیجئے تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ (بنی اسرائیل :111) 2۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والاہے۔ (الفاتحہ :1) 3۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ (الانعام :1) 4۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت سے نوازا۔ (الاعراف :43) 5۔ تمام تعر یفات اس ذات کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی۔ (المومنون :28) 6۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچ فرمایا۔ (الزمر :84) 7۔ ہر چیز اپنے رب کو سجدہ کرتی ہے۔ (النحل :49) 8۔ کائنات کی ہر چیز اپنے رب کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحشر :1) 9۔ ہر چیز کا سایہ اپنے رب کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل :38)