وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا
اور (دیکھو) ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کے طریقوں سے (مطالب حق) بیان کیے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، ہوا تو یہ ہوا کہ (سچائی سے) اور زیادہ نفرت بڑھ گئی۔
فہم القرآن : (آیت 41 سے 43) ربط کلام : کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانا اس کی ذات کے ساتھ شریک بنانے کے مترادف ہے۔ اس بات کی تردید کے لیے یہ بتلایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہوتا تو وہ ضرور اس کے خلاف کوئی راستہ تلاش کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ ہر قسم کے دلائل دیئے ہیں۔ لیکن مشرک نے اپنی فطرت کو اس طرح مسخ کرلیا ہوتا ہے کہ وہ توحید خالص کو سننا گورا نہیں کرتا۔ مشرک کی طبیعت اور فطرت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں تو یہ سن کر مشرک تکبر کا اظہار کرتے ہیں۔ ( الصٰفٰت :35) دوسرے مقام پر مشرک کی فطرت کا یوں ذکر کیا ہے کہ جب انہیں ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا ہے تو انکار کرتے ہیں اور اگر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جائے تو فوراً مان جاتے ہیں۔ حالانکہ حکم تو صرف اللہ عالی مرتبت کا چلتا ہے۔ (المومن :12) سورۃ الزمر آیت 45میں مشرک کی حالت یوں بیان کی ہے کہ جب ایک اللہ وحدہ لا شریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا تذکرہ ہوتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کا توحید ہی سب سے بڑا اور مرکزی مضمون ہے۔ اس لیے جب عقیدہ توحید کا بیان ہوتا ہے تو مشرک قرآن مجید سے مزید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں سمجھانے کے لیے یہ انداز اختیار کیا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور اِلٰہ ہوتا جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ سے کچھ اختیار لینے کی کوشش کرتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اولاد ہوتی تو وہ اس سے کچھ نہ کچھ اختیار مانگتی اگر کوئی اس کا شریک ہوتا تو ہر صورت اختیارات کا مطالبہ کرتا۔ ایک الٰہ ایک فیصلہ کرتا دوسرا خدا کوئی اور حکم دیتا۔ جس سے زمین و آسمان کے نظام میں خلل واقع ہوتا۔ کائنات کے نظام کا مربوط اور یکسوئی کے ساتھ چلنا اس بات کا ثبوت ہے۔ ایک ہی ذات وحدہ لاشریک ہے۔ جو پورے نظام کو سنبھالے اور چلائے جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد اور ہر قسم کے شریک سے پاک ہے اور وہ مشرکوں کی بیہودہ اور فرسودہ باتوں، پراگندہ خیالات اور گندے عقیدے سے بہت ہی بلند و بالا ہے۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید کی نصیحت آموز باتیں سن کر کفار کی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہیں ہے۔ 3۔ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ ہوتا تو یہ اللہ تعالیٰ کے عرش تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کفار کی باتوں سے پاک اور بلند و بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید باعث نصیحت ہے : 1۔ ہم نے قرآن میں طرح طرح کے دلائل دیے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل :41) 2۔ یہ کتاب برحق ہے کیا اس کا علم رکھنے والا شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اندھا ہے ؟ عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الرعد :19) 3۔ ہم نے بابرکت کتاب نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ (ص :29) 4۔ ہم نے قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ کفار نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر :27) 5۔ اللہ تعالیٰ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ:242)