سورة البقرة - آیت 200

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب تم حج کے تمام ارکان پورے کرچکو تو چاہیے کہ جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کی بڑائیوں کا ذکر کیا کرتے تھے اب اسی طرح اللہ کا ذکر کیا کرو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ (کہ تمام اعمال حج سے اصل مقصود یہی ہے) اور پھر (دیکھو) کچھ لوگ تو ایسے ہیں (جو صرف دنیا ہی کے پجاری ہوتے ہیں اور) جن کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ خدایا ! ہمیں جو کچھ دینا ہے دنیا ہی میں دے دے پس آخرت کی زندگی میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوتا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 200 سے 202) ربط کلام : حج کو عام اجتماع اور میلہ کا رنگ دینے کے بجائے اس میں عبادت اور ذکر و اذکار کا ماحول ہونا چاہیے۔ کفار اور مشرکین نے حج کے مقدس اجتماع کو دنیا کے فائدے اور خود غرضی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ دعا کرتے ہوئے رب کے حضور دنیا ہی کے طلبگار ہوتے تھے۔ گویا کہ دین اور عبادت بھی ان کی نظروں میں دنیا کا ہی مقصود ٹھہری تھی۔ جیسے آج کل بعض لوگ کسی کو کھانا کھلائیں تو فقط دعا اور نمائش کی خاطر‘ مسجد میں اعتکاف کریں تو صرف دنیا کے مصائب سے چھٹکارا پانے کے لیے‘ مساجد ومدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو نمائش اور شہرت کے لیے‘ حج دنیاوی مشکلات سے نجات پانے اور دولت کی نمائش کے لیے کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جب مصائب سے نجات پاتے ہیں تو نہ وہ زہد وتقو ٰی رہتا ہے اور نہ ہی علماء کا احترام واکرام بلکہ نماز اور روزے سے بھی غافل ہوجاتے ہیں۔ ان کے بارے میں سورۃ حج آیت 11میں فرمایا گیا ہے کہ کچھ لوگ تو بس کنارے پر بیٹھ کرہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اگر انہیں فائدہ پہنچے تو مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اگر آزمائش میں مبتلا ہوں تو پیٹھ پھیر جاتے ہیں۔ ان کو دنیا اور آخرت میں بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہاں بنیادی طور پر دو قسم کی سوچ بیان کی جارہی ہے ایک ان لوگوں کی جن کے صبح وشام اور لیل ونہار دنیا ہی کے حصول کے لیے وقف ہیں۔ دنیا کے علاوہ ان کے احاطۂ خیال میں کوئی چیز نہیں آتی۔ انہیں دنیا تو اپنے حصہ کے مطابق مل جائے گی مگر آخرت میں وہ یکسر طور پر تہی دامن ہوں گے۔ کیونکہ انہوں نے آخرت کے لیے کچھ نہیں کیا ہوگا اور نہ ہی وہ آخرت کے طلب گار تھے۔ ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی تعریف کی جارہی ہے جو دنیا میں رہ کر آخرت پرنظر رکھے ہوئے ہیں۔ مومن اور دنیا دار کی سوچ کافرق سمجھنے کے لیے حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کے فرمان سے بہتر کسی امتی کا اس بات کے حوالے سے ارشاد نہیں ہوسکتا : (إِحْرِزْلِدُنْیَاکَ کَأَنَّکَ تَعِیْشُ أَبَدًا وَاعْمَلْ لآخِرَتِکَ کَأَنَّکَ تَمُوْتُ غَدًا) [ مسند الحارث زوائد الہیثمی: کیف العمل للدنیا والآخرۃ (صحیح)] ” دنیا اس طرح کماؤ گویا تو نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کے لیے ایسے اعمال کرو جیسے تو نے کل فوت ہوجانا ہے۔“ یہی فرق ہے ایک کافر اور دنیا دارمومن کی جدوجہد کے درمیان۔ کیونکہ بے شمار کام ایسے ہیں جو کافر اور مومن کو فطری طور پر ایک جیسے کرنے پڑتے ہیں۔ جن کو سمجھنے کے لیے معمولی درجے کی چند مثالیں ذہن میں تازہ فرمائیں۔ کافر بھی کھانا کھاتا ہے اور مومن بھی کھانے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دنیا دار بھی کپڑے پہنتا ہے اور مسلمان کا بھی لباس کے بغیر گزارہ نہیں۔ ایمان سے تہی دامن انسان بھی سوتا ہے جب کہ ایمان دار کو بھی نیند پوری کرنا ہوتی ہے۔ لیکن ان کے کرنے کے انداز اور ان کے پیچھے کار فرما جذبات کا زمین و آسمان سے زیادہ فرق ہے۔ مومن کا سونا بھی عبادت ہے جب کہ کافر کی عبادت بھی خدا کے ہاں عبادت کا درجہ نہیں رکھتی۔ کیونکہ اس کے پیچھے نہ ایمان کا تصور ہے اور نہ کرنے کا انداز سنت نبوی کے مطابق ہے۔ یہاں دونوں قسم کے لوگوں کو بتلایا گیا ہے کہ جو کمائے گا وہی پائے گا۔ اللہ تعالیٰ عنقریب ایک ایک لمحہ کا حساب لے گا۔ لہٰذا دعا کی صورت میں یہ فکر دی جارہی ہے کہ کامل اور بہتر سوچ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے نہ صرف بیک وقت بھر پور کوشش کی جائے بلکہ رب کے حضور دعا بھی ہونی چاہیے کہ ” اے ہمارے رب! ہماری دنیا بھی بہتر فرما اور آخرت بھی اور ہمیں جہنم کی ہولناکیوں سے محفوظ فرما۔“ رسول کریم (ﷺ) اکثر یہ دعامانگتے اور طواف کے دوران رکن یمانی سے لے کر حجر اسود تک اس دعا کا التزام کرتے تھے۔ (رواہ البخاری، کتاب الحج) مسائل : 1۔ مناسک حج پورے کرنے کے بعد منٰی میں اللہ کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے۔ 2۔ دنیا دار لوگ آخرت کے بجائے صرف دنیا ہی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ 3۔ صرف دنیا کے طلب کرنے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرنا چاہیے۔ 5۔ ہمیشہ جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنا چاہیے۔ 6۔ اللہ سے بڑھ کر کوئی جلد حساب لینے والا نہیں۔