سورة الإسراء - آیت 26

وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) جو لوگ تمہارے قرابت دار ہیں، جو مسکین ہیں، جو (بے یارومددگار) مسافر ہیں، ان سب کا تم پر حق ہے ان کا حق ادا کرتے رہو اور مال و دولت کو بے محل خرچ نہ کرو جیسا کہ بے محل خرچ کرنا ہوتا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 26 سے 27) ربط کلام : والدین کی خدمت کے بعد عزیز و اقرباء اور کمزور لوگوں کی خدمت کا حکم۔ والدین کے احترام و اکرام اور ان کی خدمت کا حکم دیتے ہوئے ان کی شان اور مرتبہ کے پیش نظر احسان کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس میں ہر قسم کا تعاون اور نیکی شامل ہے۔ لیکن رشتہ داروں پر خرچ کرنے کے لیے حق کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس میں ایک قسم کی تاکید کے ساتھ یہ باور کروایا گیا ہے کہ رشتہ داری کے حوالے سے تمہارے مال میں ان کا حق ہے جو تمہیں ادا کرنا چاہیے۔ رشتہ داروں کے بعد مسکین اور مسافر پر خرچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ فضول خرچی سے بچو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے ساتھی ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ شیطان اپنے رب کا ناقدردان اور ناشکرا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ تبذیر کا معنی ہے نیکی کے کاموں پر خرچ کرتے وقت ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا جیسے مسجدوں کے میناروں اور ان کی زیب و زیبائش پر سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ برائی کے کاموں پر مال خرچ کرنے کو اسراف کہا جاتا ہے جس سے ہر صورت بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن سوالات : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَّرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اُطْعِمُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہُ اَمَاعَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہُ لَوَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ یَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَسْقِیْکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ سَقَیْتَہُ وَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ)[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فی فضل عیادۃ المریض] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا تو تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا۔ میرے پروردگار میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کرتا؟ کیونکہ تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا۔ تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی۔ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا؟ بندہ جواب دے گا‘ اے میرے رب! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو جہانوں کو کھلانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھے معلوم نہیں میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اس کو کھلانے سے انکار کردیا تھا۔ تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔ آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرے گا‘ اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو جہانوں کو پلانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ تو نہیں جانتا کہ؟ اگر تو نے اسے کھلایا، پلایا ہوتا تو آج میرے پاس اپنے لیے کھانا پینا پاتا۔“ (عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ حُسَیْنٍ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () لِلسَّائِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلَی فَرَسٍ ) [ رواہ أبوداود : کتاب الزکاۃ، باب فی حق السائل ] ” فاطمہ بنت حسین حضرت حسین بن علی (رض) سے بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔“ بخل سے بچو : (قَال النَّبِیُّ () کُلُوا واشْرَبُوا والْبَسُوا وَتَصَدَّ قُوْا، فِی غَیْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِیلَۃٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب اللباس] ” نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کھاؤ اور پیو، پہنو اور صدقہ کرو لیکن فضول خرچی اور بخیلی سے اجتناب کرو۔“ (عَنِ الْمُغِیْرَۃِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّھَاتِ وَوَأُدَ الْبَنَاتِ وَمَنْعًا وَّھَاتِ وَکَرِہَ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ وَاِضَاعَۃَ الْمَالِ) [ رواہ البخاری : کتاب الاستقراض] ” حضرت مغیرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں کی نافرمانی کرنے‘ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے‘ خود نہ دینے اور لوگوں سے عطیہ طلب کرنے کو حرام قراردیا ہے۔ اور بے مقصد باتوں سے اجتناب، زیادہ سوالات کرنے اور مال کو ضائع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔“ مسائل: 1۔ قریبی رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کریں۔ 2۔ فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ 3۔ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ 4۔ شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ تفسیر بالقرآن: فضول خرچی اور اسراف کی ممانعت : 1۔ فضول خرچی نہ کرو۔ (بنی اسرائیل :26) 2۔ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ (بنی اسرائیل :27) 3۔ کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف :31) 4۔ فصل کی کٹائی کے وقت اس کا حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو۔ (الانعام :141) 5۔ اللہ کے بندے جب خرچ کرتے ہیں نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخیلی۔ (الفرقان :67) 6۔ اسراف کرنے والوں کے پیچھے نہ چلو۔ (الشعراء :151) 7۔ ہم اسی طرح حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے اعمال مزین کرتے ہیں۔ (یونس :12) 8۔ اللہ حد سے تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المومن :28) 9۔ ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اللہ کی آیات پر ایمان نہ لانے والوں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔ (طٰہٰ:128)