سورة الإسراء - آیت 11

وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) جس طرح انسان اپنے لیے بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے، اسی طرح (بسا اوقات) برائی بھی مانگنے لگتا ہے (اگرچہ نہیں جانتا کہ یہ اس کے لیے برائی ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی جلد باز ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 11 سے 12) ربط کلام : انسان کے لیے قرآن مجید ہدایت اور خوشخبری ہے۔ مگر ہدایت کے لیے کچھ محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن انسان اس محنت سے جی چراتے ہوئے دنیا کے عارضی فائدے کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انسان اپنی جلد باز طبیعت کی وجہ سے اکثر اوقات یہ نہیں سوچتا کہ دنیا کے جس فائدے کی خاطر آخرت کی دائمی خیر کو فراموش کر رہا ہوں۔ وہ اس کے لیے کس قدر نقصان کا سودا ہے کیونکہ انسان جلد باز ہے۔ اس لیے انسان خیر کے لیے محنت کرنے کی بجائے شر کی طرف جلد راغب ہوتا ہے۔ جس بنا پر اچھے نتیجے اور خیر کا انتظار کرنے کی بجائے وہ شر کا متلاشی بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کی معمولی تکلیف سے پریشان ہو کراپنے لیے شر کی دعا کرنے سے بھی نہیں جھجکتا۔ اس کی لوگوں کی زندگی میں کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ بیماری سے نجات کی بجائے موت کی دعا کرنا، اولاد کی خیر مانگنے کی بجائے ان کو بربادی کی بدعا دینا، مشکلات پر قابو پانے کی بجائے خود کشی کے گھاٹ اتر جانا وغیرہ۔ یہ حرکات انسان کی جلد بازی کا نتیجہ ہیں۔ حالانکہ انسان ذرا غور و فکر کرے تو اسے اس بات کا ادراک ہوجائے گا کہ اس کی زندگی جس لیل و نہار سے عبارت ہے۔ ان میں نشیب و فراز کا پایا جانا قدرتی اور فطری معاملہ ہے۔ اس لیے یہاں رات اور دن کو دو نشانیاں قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : ” ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کو اندھیری اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو۔ رات اور دن بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے تاکہ تم دن رات کے ذریعے مہینوں اور سالوں کا حساب کرو۔ ہم نے ہر چیز کو تفصیل سے بیان کردیا ہے۔“ ہر چیز کی تفصیل کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں اور باتیں انسان کی ہدایت اور اس کی آخرت کے فوائد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیا ہے۔ اگر کہیں ایک بات کو اشارہ کی زبان میں ذکر کیا ہے۔ تو وہ اشارہ بھی عقل مندوں کے لیے کھلی تفصیل کا عنوان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے نکتہ سنج دا نشوروں اور کائنات پر غور کرنے والے سائنس دانوں نے قدرت کے بھید پانے کے لیے قرآن مجید کے دیے ہوئے اشاروں سے روشن شاہرائیں پائیں اور اپنی اپنی ایجادات سے ایک دنیا کو مستفید فرمایا۔ جہاں تک رات کی تاریکی اور دن کی روشنی کا معاملہ ہے اس میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ اے انسان ! جس طرح رات کا تاریک ہونا لازم ہے۔ اس طرح پریشانیاں اور مشکلات تیری زندگی کا حصہ ہیں۔ یہاں دن کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ذکر کیا کہ دن کو اس لیے روشن بنایا تاکہ تم دن کے اجالوں میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ فضل تلاش کرنے سے مراد رزق حلال کے لیے محنت کرنے کے ساتھ دنیا کی ترقی کے اسباب کا حصول ہے۔ جس میں یہ کھلا اشارہ پایا جاتا ہے کہ مشکلات میں پریشان ہونے اور کسی شر کے بارے میں جلد بازی کرنے کی بجائے انسان کو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے مشکلات پر قابو پانے کی جدوجہد کرنی چاہیے کہ جس طرح رات کے بعد دن کا آنا یقینی ہے۔ اسی طرح مشکلات کے بعد آسانیوں کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ قرآن مجید نے اس اصول کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن: رات اور دن قدرت کی نشانیاں ہیں : 1۔ رات اور دن کو اللہ نے نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل :12) 2۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ:37) 3۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران :190) 4۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس :6)