سورة النحل - آیت 102

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر) تم کہہ دو (یہ میرے جی کی بناوٹ نہیں ہے اور نہ ہوسکتی ہے) یہ تو فی الحقیقت تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس نے اتاری ہے اور اس لیے اتاری ہے کہ ایمان والوں کے دل جما دے، فرمانبردار بندوں کے لیے رہنمائی اور (نجات و سعادت کی) خوشخبری۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : منکرین قرآن کے ایک اور الزام کا جواب۔ کفار یہ کہہ کر قرآن مجید کا انکار کرتے تھے کہ اس نبی نے اسے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ جبکہ اہل کتاب کا یہ اعتراض تھا کہ اس رسول پر قرآن لانے والا جبرائیل (علیہ السلام) ہے جس کے ساتھ ہماری پرانی دشمنی ہے۔ یہودی یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ جبریل ظالم اور خائن فرشتہ ہے۔ اس نے ہماری کئی نسلوں کو تباہ کیا جو جبریل (علیہ السلام) کی ہم پر کھلی زیادتی ہے۔ سورۃ البقرہ آیت 97، 98 میں اس ہرزہ سرائی کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ ” اے اللہ کے رسول ! آپ فرمادیں جو جبریل کا دشمن ہو وہ اللہ، اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور میکائیل کا دشمن ہے۔“ جہاں تک جبریل امین (علیہ السلام) کا تعلق ہے اس نے اللہ کے حکم سے اس قرآن کو آپ (ﷺ) کے قلب اطہر پر نازل کیا ہے جو مومنوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور سراسر خوشخبری ہے۔ یہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو روح القدس قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق لے کر آیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمان کو مضبوط بنائے۔ قرآن مجید اپنے ماننے والوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور خوشخبری کا پیغام ہے۔ حق سے مراد قرآن مجید ہے۔ جو دلائل، الفاظ، انداز اور اپنے احکام کے حوالے سے سچائی کا سرچشمہ اور حق کا ترجمان ہے۔ اسے نازل کرنے والا اور لانے والا فرشتہ سچا ہے۔ روح القدس کا معنیٰ ” پاکیزہ روح“ یعنی وہ شخصیت جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی غلطی، زیادتی، بھول اور خیانت سے پاک پیدا کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ فرشتے کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوہر قسم کی آلائش اور غلطی سے پاک پیدا کیا ہے۔ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تمام ملائکہ کے سردار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اعزاز اور مقام بخشا کہ وہ تمام انبیاء ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احکام لاتے اور پاک باز اور عظیم ترین ہستیوں سے بار بار شرف ملاقات پات رہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو مختلف القابات سے نوازا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے پر اور شخصیت : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ رَأَی رَسُوْلُ اللَّہِ () جِبْرِیلَ فِی صُورَتِہِ وَلَہٗ سِتُّمِائَۃِ جَنَاحٍ کُلُّ جَنَاحٍ مِّنْہَا قَدْ سَدَّ الأُفُقَ یَسْقُطُ مِنْ جَنَاحِہٖ مِنَ التَّہَاوِیْلِ وَالدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ مَا اللَّہُ بِہٖ عَلِیْمٌ)[ رواہ احمد] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اس کی اصلی حالت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔ ہر پرنے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کے پروں سے سرخ، زرد اور سبز رنگ کے موتی اور یاقوت گر رہے تھے۔ جن کے حسن و جمال کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔“ ( قَالَ جَابِرٌ (رض) أُحَدِّثُکُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُول اللَّہِ () قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَہْرًا فَلَمَّا قَضَیْتُ جِوَارِی نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِی فَنُودِیتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِی وَخَلْفِی وَعَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِیتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِیتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَإِذَا ہُوَ عَلَی الْعَرْشِ فِی الْہَوَاءِ یَعْنِی جِبْرِیلَ فَأَخَذَتْنِی رَجْفَۃٌ شَدِیدَۃٌ فَأَتَیْتُ خَدِیجَۃَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِی فَدَثَّرُونِی فَصَبُّوا عَلَیَّ مَاءً فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ﴾)[ رواہ مسلم : باب بدء الوحی الی رسول اللہ] حضرت جابر (رض) کہنے لگے کہ میں تمہیں وہ حدیث سنا تا ہوں۔ جو رسول اللہ (ﷺ) نے بیان فرمائی آپ نے فرمایا میں ایک مہینے کے لیے غارِحرا میں گوشہ نشینی اختیار کی جب میں نے ایک مہینہ کی میعاد پوری کرلی تو میں وادی کی طرف اترا تو مجھے آواز دی گئی میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو جبر ائیل امین کو ہوا میں عرش پر بیٹھے ہوئے پایا تو مجھے سخت خوف لاحق ہوا میں خدیجہ (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے چادر اڑھادو اور مجھ پر پانی بہاؤ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ﴾ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نبی اکرم (ﷺ) پر نازل فرمایا۔ 2۔ قرآن مجید مسلمانوں کے لیے باعث ہدایت وبشارت ہے۔ 3۔ قرآن مجید کی آیات کو نازل کرنے کا مقصد مومنوں کو ثابت قدم رکھنا ہے۔ تفسیر بالقرآن: حضرت جبریل (علیہ السلام) کے اوصاف اور القابات : 1۔ آپ فرما دیں کہ اسے روح القدس نے آپ کے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے۔ (النحل :102) 2۔ قرآن مجید کو روح الامین نے آپ (ﷺ) پر اتارا ہے۔ (الشعراء :193) 3۔ جبریل امین ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر :21) 4۔ شب قدر کی رات فرشتے اور روح (جبریل) اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر :4) 5۔ اور ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس سے مدد کی۔ (البقرۃ:87) 6۔ جبریل امین مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم :8) 7۔ جبریل امین طاقتور فرشتہ ہے۔ (النجم :5) 8۔ جبریل امین نے آپ کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ :97)