سورة النحل - آیت 92

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور دیکھو تمہاری مثال اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے بڑی محنت سے سوت کا تا، پھر توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ تم آپس کے معاملہ میں اپنی قسموں کو مکرو و فساد کا ذریعہ بناتے ہو، اس لیے کہ ایک گروہ (کسی) دوسرے گروہ سے (طاقت میں) بڑھ چڑھ گیا ہے (یاد رکھو) اللہ اس معاملہ میں تمہاری (راست بازی و استقامت کی) آزمائش کرتا ہے (کہ تم طاقتور گروہ کا پاس کرنے لگتے ہو یا اپنے قول و قرار کا) جن جن باتوں میں تمہارے اختلاف ہیں ضرور ایسا ہوگا کہ وہ قیامت کے دن (حقیقت حال) تم پر آشکارا کردے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عہد کو توڑنا اور قسم کا احترام نہ کرنا اپنے اچھے کردار کی نفی کرتا ہے۔ انسان کتنا ہی صاحب کردار اور باوقار کیوں نہ ہو جب دوسرے سے کیے ہوئے عہد کو توڑتا ہے اور اپنی قسم کا خیال نہیں رکھتا تو ایساشخص اس حد تک لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے کہ لوگ نہ صرف اس کے صالح کردار کی نفی کرتے ہیں بلکہ اس کی نماز روزہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ لوگوں کو ایسے شخص سے اس قدر نفرت ہوجاتی ہے کہ اس کا نام سنتے ہی لوگ اسے بے ایمان کہتے ہیں۔ ایسا شخص قسم کی بے حرمتی اور عہد شکنی کی وجہ سے اپنے ماضی کے اچھے کردار کی نفی کر بیٹھتا ہے۔ اس شخص کی مکہ کی اس عورت (یہ کوئی خاص عورت تھی یا ویسے ہی بطور مثال ذکر ہوا ہے) کے ساتھ مثال دی جا رہی ہے جس کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا۔ وہ سارا دن سوت کاتنے کے بعد مغرب کے بعد خود ہی اسے ریزہ ریزہ کردیتی تھی۔ عہد توڑنے اور اپنی قسم کی پاسداری نہ کرنے والے کا یہی حال ہوتا ہے۔ عام طور پر عہد شکنی اور قسم کی بے حرمتی آدمی اس وقت کرتا ہے جب وہ دوسرے کی مخالفت یا کسی فائدہ کے لالچ میں حد سے گزر جاتا ہے۔ اس لیے ایسی حرکت سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا ایک دوسرے سے بڑھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ ایسے کاموں سے تجھے رک جانا چاہیے جو لوگ کسی معاملہ میں غلط ہونے کے باوجود جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں انہیں سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاملات میں آزماتا ہے کہ تم کس حد تک اپنی قسموں کا خیال اور اپنے درمیان عہد کی پاسداری کرتے ہو۔ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ الْکَبَائِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ )[ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد اور قسم کو نہ توڑو۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ 3۔ قیامت کے دن لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا : 1۔ بے شک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس :93) 2۔ اللہ ان کے معاملات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ :210) 3۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل :78) 4۔ اللہ عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن :20) 5۔ اللہ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ (یونس :54) 6۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج :69) 7۔ اللہ قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء :47) 8۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو تم اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر :3) 9۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلاف کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ:213) 10۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور کافر مومنوں پر کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔ (النساء :141)