سورة النحل - آیت 33

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغبر) یہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں تو اس بات کے سوا اور کون سی بات اب باقی رہ گئی ہے کہ فرشتے ان پر اتر آئیں یا تیرے پروردگار کا (مقررہ) حکم ظہور میں آجائے؟ ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں (کہ سرکشی و فساد سے باز نہ آئے یہاں تک کہ (حکم الہی ظہور میں آگیا) اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 33 سے 34) ربط کلام : متقی حضرات کو خوشخبری سنانے کے بعد خطاب کا رخ مشرکین کی طرف کیا گیا ہے۔ مشرکین اور خدا کے منکر جب حق کے مقابلے میں لا جواب ہوجاتے تو اس بات کا مطالبہ کرتے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ اس نبی کے پاس فرشتے بھیجتا ہے اور ملائکہ ہمارے پاس کیوں نہیں بھیجتا؟ بسا اوقات وہ اس بات کو یوں بھی کہتے کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک فرشتے آکر ہمارے سامنے اس کی تائید نہ کریں۔ بار بار سمجھانے کے باوجودیہ لوگ سمجھنے کے لیے تیار۔ ان کے ایک اعتراض کا مدلل جواب دیا جاتا ہے تو دوسرا اعتراض جوڑ دیتے۔ جب اس کے بارے میں تشفی کردی جاتی ہے تو تیسرا اعتراض کیے دیتے ہیں ان کا مقصد حق سمجھنا اور قبول کرنا نہیں تھا بلکہ یہ لوگ اپنے ساتھیوں کو ورغلانے اور حق والوں کو پریشان کرنے کے سوا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ لہٰذا اب تو یہ عملا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے آئیں جو ان کا قلع قمع کردیں یا پھر اللہ کا عذاب آئے جو انہیں تہس نہس کر دے۔ یہی رویہ ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کیا تھا۔ جس وجہ سے وہ ہلاک کردیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی۔ وہ خود ہی اپنے آپ پر زیادتی کرنے والے تھے۔ اسی وجہ سے ان کو اپنے اعمال کا انجام دیکھنا پڑا اور جس عذاب کو وہ استہزاء کا نشانہ بناتے تھے اس نے انہیں اچانک دبوچ لیا۔ ظلم کی حرمت : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ () فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا....) [ رواہ البخاری : باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر نبی کریم (ﷺ) سے حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تم پر بھی، پس تم آپس میں ظلم نہ کرو.....۔“ ایک دوسرے پر ظلم کرنا حرام ہے ۔ مسائل: 1۔ کفار منتظر تھے کہ فرشتے آئیں یا اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے۔ 2۔ مشرکین مکہ سے پہلے بھی کفار کا یہی وطیرہ رہا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ 4۔ لوگ اپنے آپ پر خود ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ اور اس کے رسول کا مذاق اڑانے والوں کا انجام : 1۔ انہیں اسی عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ تمسخر اڑاتے تھے۔ (النحل :34) 2۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کے لیے کافی ہے۔ (الحجر :95) 3۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مذاق کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔ (یٰس :35) 4۔ اللہ تعالیٰ نے مذاق کرنے والوں کو ڈھیل دی پھر انہیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ (الرعد :32) 5۔ اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ (الکہف :106) 6۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کے لیے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔ (التوبۃ:79)