ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ
پھر (اس کے بعد) قیامت کا دن (پیش آنے والا) ہے جب وہ انہیں رسوائی میں ڈالے گا اور پوچھے گا، بتلاؤ آج وہ ہستیاں کہاں گئیں جنہیں تم نے میرا شریک بنایا تھا اور جن کے بارے میں تم (اہل حق سے) لڑا کرتے تھے؟ اس وقت وہ لوگ جنہیں (حقیقت کا) علم دیا گیا تھا پکار اٹھیں گے بیشک آج کے دن کی رسوائی اور خرابی سرتا سر کافروں کے لیے ہے ان کافروں کے لیے کہ فرشتوں نے جب ان کی روحیں قبض کی تھیں تو اپنی جانوں پر خود اپنے ہاتھوں ظلم کر رہے تھے۔
فہم القرآن : ربط کلام : دنیا کے انجام کے ساتھ مجرموں کا آخرت میں انجام۔ گمراہ اقوام اور ان کے راہنماؤں کا دنیا میں بدترین انجام ہوا۔ قیامت کے روز بھی انہیں رسوا کیا جائے گا۔ قیامت کی رسوائیوں میں ایک رسوائی یہ ہوگی کہ غلط پیروں اور ان کے مریدوں، لیڈروں اور ان کے ور کروں، علماء اور ان کے پیروکاروں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم بحث و تکرار، جنگ و جدال اور جھوٹے دلائل دیا کرتے تھے۔ جب کوئی جواب نہیں دے پائیں گے تو اہل علم پکار اٹھیں گے۔ آج کے دن کافر اور مشرک ذلیل ہوجائیں گے۔ قرآن مجید میں کافروں اور مشرکوں کی رسوائیوں کا یوں ذکر کیا گیا ہے : تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن پیروں، مریدوں کی تقرار : 1۔ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کی تکفیر کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت :25) 2۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظھار کریں گے۔ (البقرۃ:166) 3۔ قیامت کے دن پیروکار کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے براءت کا اظھار کریں گے (البقرۃ:165) 4۔ کاش آپ ظالموں کو اس وقت دیکھیں جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو نگے تو ایک دوسرے کے سامنے تردد کرتے ہوئے کمزوراپنے بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے جب کہ ان کے بڑے اس سے انکاری ہونگے (سبا : 32۔ 31) 5۔ قیامت کے دن مجرم دوزخ میں جھگڑیں گے تو کم تر لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے (المومن :48)