وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (پھر دیکھو) یہی جانور ہیں جو تمہارا بوجھ اٹھا کر ایسے (دور دراز) شہروں تک لے جاتے ہیں کہ تم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے مگر بڑٰ ہی جانکا ہی کے ساتھ۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت رکھنے والا بڑا ہی رحمت رکھنے والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 7 سے 8) ربط کلام : حلال چوپایوں کے ذکر کے بعد بار برداری کے کام آنے والے چوپایوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کرم فرمائی ہے کہ اس نے حلال چوپاؤں اور بار برداری کے کام آنے والے چوپاؤں کے درمیان حلال و حرام کے ذریعے فرق کردیا ہے۔ حلال چوپایوں میں بھیڑ اور بکریوں کا گوشت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اور ان کی نسل دنیا کے تمام ممالک میں حسب ضرورت پائی جاتی ہے۔ ان کی افزائش اور پیدائش کا سلسلہ دوسرے چوپایوں کے مقابلے میں زود افزائش ہے۔ بھیڑچھ سے سات مہینے کے دوران ایک سے لے کر تین تک بچے جنم دیتی ہے۔ بکری پانچ سے چھ مہینے کی مدت میں عام طور پر دو سے چار بچے پیدا کرتی ہے۔ ان کے مقابلے میں بار برداری کے کام آنے والے جانوروں کی حلال جانوروں کے مقابلے میں نسبتا کم ضرورت ہوتی ہے اس لیے ان کی مدت پیدائش میں بھی خاصہ فرق رکھا گیا ہے۔ شاید اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ انہوں نے بوجھ اٹھا کر طویل سفر کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے گھوڑی اور گدھی بارہ ماہ کے بعد بچہ پیدا کرتی ہے۔ تاکہ ان کے جسم مضبوط ہوں اور ان کے تخلیقی ڈھانچے میں کسی قسم کی کمزوری واقع نہ رہے۔ اگر سواری اور باربرداری کے لیے یہ جانور پیدا نہ کیے جاتے تو انسان کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بھاری بھرکم اشیا کی منتقلی ناممکنات میں سے ہوجاتی۔ چوپائے سواری اور بار برداری کے کام آنے کے علاوہ آدمی کی زینت اور شوکت میں اضافہ کے باعث بھی ہیں۔ بالخصوص گھوڑے اور خچر کی سواری سوار کی شوکت میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے چوپایوں کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ ورنہ انسان کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ انہیں اپنے تابع کرلیتا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہاری سواری اور باربرداری کے لیے اللہ تعالیٰ وہ کچھ پیدا کرے گا جس کو تم نہیں جانتے چنانچہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل عنایت فرمائی کہ وہ سواری اور باربرداری کے لیے نئی سے نئی ایجادات کرتا رہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج فضا میں سینکڑوں من بوجھ اٹھائے ہوئے ہوائی جہاز پرواز کر رہے ہیں اور ہزاروں ٹن وزن اٹھائے بحری جہاز سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے ہزاروں میل کی مسافت طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ ایجادات نہ ہوتیں تو انسان کبھی اتنی ترقی نہ کرسکتا۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارا رب تم پر بڑا مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) کَانَ اِذَا اسْتَوٰی عَلٰی بَعِیْرِہٖ خَارِجًا اِلَی السَّفَرِ کَبَّرَ ثَلٰثًا ثُمَّ قَالَ (سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَاالْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاطْوِعَنَا بُعْدَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَّعْثَآء السَّفَرِ وَکَآبَّۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالاَھْلِ) وَاِذَا رَجَعَ قَالَ ھُنَّ وَزَادَ فِیْھِنَّ (اآءِبُوْنَ تَآءِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ) [ رواہ مسلم : باب مایقول اذا رکب الی سفرالحج] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) سفر پر روانہ ہوتے وقت جب اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعا پڑھتے ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کردیا حالانکہ ہم اس کو زیر کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ بارِالٰہا! ہم اس سفر میں نیکی‘ تقویٰ اور ایسے عمل کا سوال کرتے ہیں جس میں تیری رضا ہو۔ اے ہمارے معبود ! ہمارے اس سفرکو آسان بنا دے‘ اس کی دوری کو سمیٹ دے۔ بارِ الٰہا! تو سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور اہل وعیال کی حفاظت فرمانے والا ہے۔ بارِ الٰہا! میں سفر کی مشقتوں‘ غمناک منظر اور اپنے اہل وعیال اور مال میں پریشان واپسی سے تیری پناہ مانگتاہوں۔“ جب واپس آتے تو ان کلمات کا اضافہ فرماتے۔” ہم لوٹنے والے ہیں‘ توبہ کرنے والے ہیں‘ عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی حمدوثنا کے گن گانے والے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا بوجھ اٹھانے کے لیے چوپائیپیدا کیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت اور رحمت فرمانے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے گھوڑے، خچر اور گدھے سواری کے لیے پیدا کیے ہیں اور ان کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ وہ کچھ پیدا کرے گا جسے انسان نہیں جانتا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ شفقت اور رحمت والا ہے : 1۔ اللہ بڑی شفقت اور رحمت والا ہے۔ (النحل :7) 2۔ اللہ تمہارے ساتھ شفقت اور رحمت فرماتا ہے۔ (الحدید :90) 3۔ اللہ لوگوں کے ساتھ شفقت اور رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ :143) 4۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی بے شک وہ شفقت کرنے اور رحم والا ہے۔ (التوبۃ:117)