وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ
ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کسی مصلحت ہی سے بنایا ہے (بے کار کو نہیں بنایا ہے) اور یقینا مقررہ وقت آنے والا ہے۔ پس (اے پیغبر) چاہیے کہ حسن و خوبی کے ساتھ (مخالفوں کی مخالفتوں سے) درگزر کرو۔
فہم القرآن : (آیت 85 سے 86) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مجرموں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہے گی اور قیامت برپا نہیں ہوگی۔ حالانکہ قیامت یقیناً برپا ہو کر رہے گی۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) توحید و رسالت کے بعد جس عقیدہ پر سب سے زیادہ زور دیتے تھے وہ مر کر اٹھنا اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ جسے عرف عام میں فکر آخرت کا عقیدہ کہا جاتا ہے۔ انسان جب آخرت کی جواب دہی کی فکر سے آزاد ہوجاتا ہے تو وہ نہ صرف دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے بلکہ وہ ہر کام میں من مرضی کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ دنیا پرستی اور لذت نفس کی خاطر وہ جرائم میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ بالآخر وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے محض اسے اپنی دل لگی کے لیے پیدا کیا۔ اس باطل اور بے بنیاد نظریہ کی تردید کے لیے قرآن مجید میں سینکڑوں دلائل دیے گئے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا نے ہمیشہ قائم نہیں رہنا اور بالآخر انسان نے اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا اور اسے اچھے یا برے انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بات کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” ہم نے زمین و آسمانوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے حق کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے۔“ (الاحقاف :3) حق سے مراد ہے کہ انہیں بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ سب انسان کی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جو لوگ اپنے رب کی عبادت میں زندگی صرف کریں گے وہ جزا پائیں گے اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے بجائے اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ لہٰذا اے پیغمبر ! قیامت کا برپا ہونا یقینی ہے جو لوگ اس کا انکار کرتے اور آخرت کو جھٹلاتے ہوئے لایعنی گفتگو کرتے ہیں ان سے الجھنے کی بجائے صبروتحمل اختیار کرکے انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں۔ یقیناً آپ کا رب سب کو پیدا کرنے اور ہر چیز کا علم رکھنے والاہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (ﷺ) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل: 1۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، بے مقصدپیدا نہیں کیا گیا۔ 2۔ قیامت ضرور آئے گی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت برپا ہو کر رہے گی : 1۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر :85) 2۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج :7) 3۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف :21) 4۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا ملے۔ (طہٰ:15) 5۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج :1) 6۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج :55) 7۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان :11)