فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ
پھر جب ایسا ہوا کہ یہ بھیجے ہوئے (فرشتے) خاندان لوط کے پاس پہنچے۔
فہم القرآن : (آیت 61 سے 66) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کی زندہ مثال۔ ملائکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے الوداع ہونے کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ملائکہ کو پہچان نہ سکے۔ فرمانے لگے آپ لوگ تو بالکل اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس اس کام کے لیے آئے ہیں۔ جس کام کی آمد کے بارے میں آپ کی قوم بےیقینی کا شکار ہے۔ جس کام کے لیے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں وہ حقیقت اور ہو کر رہے گا۔ یقین جانیے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ سو فیصد سچ ہے۔ بس آپ جتنا جلدی ہو سکے رات کے آخری پہر اپنے اہل کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں۔ آپ کے لیے خصوصی ہدایت یہ ہے کہ آپ نکلنے والے قافلے کے پیچھے پیچھے رہیں اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیں کہ ان میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور ادھر کی طرف چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ ہم نے لوط (علیہ السلام) کو یہ فیصلہ سنا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم ہلاک ہونے والی پہلی اقوام کی طرح نہ صرف حق کا انکار کرتی تھی بلکہ حضرت لوط (علیہ السلام) جب انہیں سمجھاتے تو وہ انہیں یہ کہہ کر طعنہ اور دھمکی دیتے کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو بستی سے نکال باہر پھینکو کیونکہ یہ اپنے آپ کو بڑے پاکباز اور حق پر سمجھتے ہیں۔ (الاعراف :82) لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو بار بار سمجھاتے رہے۔ مگر قوم سمجھنے کی بجائے حضرت لوط (علیہ السلام) سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں پھر سمجھایا کہ برے کاموں سے باز آؤ اور اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ نہ کرو اگر تم برے اعمال سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بالیقین آ کر رہے گا۔ لیکن قوم نے ان کی کسی بات پر یقین نہ کیا یہاں تک کہ غضب ناک عذاب کا وقت آن پہنچا۔ اس کے بارے میں حضرت لوط (علیہ السلام) کو نہ صرف اس کا وقت بتلا دیا گیا بلکہ یہ ہدایت بھی کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرف نکل جانے کی آپ کو ہدایت کی ہے آپ اپنی کافر بیوی کے سوا اہل ایمان کو لے کر جلد از جلد نکل جائیں۔ قرآن مجید نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے جائے ہجرت کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کوشام کی طرف جانے کا حکم ہوا تھا۔ (تفسیر رازی) مسائل: 1۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرشتوں کو نہ پہچانا۔ 2۔ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رات کے اندھیرے میں نکل جانے کا حکم دیا۔ 3۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو بتلایا دیا گیا کہ صبح ہونے سے پہلے ان کی قوم پر عذاب آ جائے گا۔ تفسیر بالقرآن : ملائکہ کا مختلف مواقعوں پر انسانی شکل میں آنا : 1۔ جب ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے تو انہوں نے کہا تم اجنبی معلوم ہوتے ہو۔ (الحجر : 61۔62) 2۔ ہمارے ملائکہ ابراہیم کے پاس آئے اور انہوں نے سلام کہا جواباََ ابراہیم نے بھی سلام کہا۔ (ھود :69) 3۔ ابراہیم نے فرشتوں سے خوف محسوس کیا تو انہوں نے کہا خوف کھانے کی ضرورت نہیں (ہم ملائکہ ہیں)۔ (الذاریات :28) 4۔ جب لوط کے پاس فرشتے آئے تو وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوئے۔ (العنکبوت :33)