سورة ابراھیم - آیت 45

وَسَكَنتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تم انہی لوگوں کی بستیوں میں بسے تھے جنہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کی تھی اور تم پر اچھی طرح واضح ہوگیا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، نیز تمہیں سمجھانے کے لیے طرح طرح کی مثالیں بھی ہم نے بیان کردیں (پھر بھی تم سرکشی سے باز نہ آئے)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 45 سے 47) ربط کلام : آخرت کے منکرین کو خطاب جاری ہے۔ منکرین آخرت کو آخرت کے عذاب سے ڈرانے کے ساتھ پہلی اقوام کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کیا یہ لوگ ان کے انجام پر غور نہیں کرتے کہ جن کی بستیوں اور علاقہ میں یہ لوگ رہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ جس وجہ سے انہیں ذلت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ انہیں معلوم نہیں کہ ہم نے کس طرح انہیں آناً فاناً اور شدّت کے ساتھ پکڑا تھا۔ ہم نے کھول کھول کر ان کے حالات اور واقعات لوگوں کے سامنے بیان کردیے ہیں کہ ان سے پہلے لوگوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ مکرو فریب اور سازش کی لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیرغالب رہی۔ حالانکہ ان کی سازشیں اور مکرو فریب اس قدر گہرے، بڑے اور مضبوط تھے کہ قریب تھا کہ پہاڑ ٹل جائیں۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ مکر کا معنی ہے سازش اور ہر قسم کا فریب۔ یہ لفظ جب منکرین حق کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی مکر و فریب ہوا کرتا ہے۔ جب مکر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کی تدبیر ہوتی ہے۔ پہاڑ ٹل جانے سے مراد یہ بتانا مقصود ہے کہ کفار نے انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اللہ تعالیٰ نے حق کو غالب فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ تمہارے دشمنوں کو ذلیل کرے گا۔ اللہ کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سخت انتقام لینے والا ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم سیلاب کی نذر ہوئی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن دریا میں غرقاب ہوئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سازش کرنے والا اپنوں کے ہاتھوں سولی چڑھ گیا۔ نبی اکرم (ﷺ) کے خلاف مکر وفریب اور سازشیں کرنے والے ایک ایک کر کے دنیا میں ذلیل وخوار ہوئے۔ آپ نے ان کی لاشوں کو یوں مخاطب کیا : جو باقی تھے انھیں فتح مکہ کے موقع پر سر عام سرور دو عالم (ﷺ) سے معافی مانگنا پڑی۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَقَفَ النَّبِیُّ () عَلَی قَلِیْبِ بَدْرٍ فَقَالَ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّہُمُ الآنَ یَسْمَعُوْنَ مَا أَقُوْلُ )[ رواہ البخاری : باب قَتْلِ أَبِی جَہْلٍ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے آپ نے مرنے والے سرداروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کو سچ پایا ہے؟ آپ نے فرمایا اب جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے وہ سن رہے ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں کو نشان عبرت بنادیا۔ 2۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ پہلی قوموں کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سخت انتقام لینے پر غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن : مخالفین کا انبیاء (علیہ السلام) اور حق کے خلاف سازشیں کرنا : 1۔ کفار نے نبی اکرم کو قتل کرنے اور ملک بدر کرنے کی سازش کی۔ (الانفال :30) 2۔ نبی کریم کو حق سے پھیر دینے کے لیے کافروں نے سازش کی۔ (البقرۃ:109) 3۔ آپ غمزدہ نہ ہوں اور کفار کے مکرو فریب سے تنگی محسوس نہ کریں۔ (النحل :127)