وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ
اور (اے پیغمبر) ایسا خیال نہ کرنا کہ اللہ ان ظالموں کے کاموں سے غافل ہے (یعنی روسائے مکہ کے کاموں سے) دراصل اللہ نے ان کا معاملہ اس دن تک کے لیے پیچھے ڈال دیا ہے جب (نتائج عمل کی ہلاکتیں ظہور میں آئیں گی، اس دن ان لوگوں کا یہ حال ہوگا، کہ شدت خوف وحیرت سے) آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
فہم القرآن : (آیت 42 سے 43) ربط کلام : نیا خطاب شروع ہوتا ہے جس میں حق کے منکروں کو ان کے انجام سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اکثر اوقات رسول معظم (ﷺ) کو براہ راست مخاطب کیا جاتا ہے۔ اسی اصول کے پیش نظر آپ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کے مخالفوں کو ان کے انجام سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اے نبی! اس بات کا کبھی تصور بھی نہ کرنا کہ آپ کے مخالف حق کا انکار اور آپ کی مخالفت کر کے جو ظلم کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بے خبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں وہ تو انہیں اس دن کے لیے مہلت دیے ہوئے ہے۔ جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ظالم سراٹھائے اپنے سامنے نظریں جمائے دوڑے جارہے ہوں گے۔ ان کی نظریں ان کی اپنی طرف بھی نہ مڑپائیں گی۔ ان کے دل گھبراہٹ کے عالم میں اڑے جارہے ہوں گے۔ سورج دنیا کی حرارت سے لاکھوں ڈگری زیادہ حرارت اور حدت لیے ہوگا۔ زمین تابنے کی طرح ہوجائے گی اور سورج زمین سے ایک میل کے فاصلے پر آجائے گا۔ لوگ اپنے اپنے پسینے میں ڈبکیاں کھا رہے ہوں گے۔ اس عالم میں لوگ گردنیں اٹھائے، پھٹی آنکھوں کے ساتھ رب ذوالجلال کی بار گاہ میں پیش ہونے کے لیے اس حال میں بھاگ رہے ہوں گے کہ ان کے دل اس طرح ہوں گے کہ جیسے چند لمحوں کے بعد پھٹ جائیں گے لیکن ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ (عَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعَرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللّٰہُ عَلٰٓی أَہْوَالِہَا] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (ﷺ) کو فرماتے سنا‘ آپ فرمارہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (ﷺ) نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَائِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی جانب دیکھیں گے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا کہ کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھ سکے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ سبھی کے اعمال سے باخبر ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے۔ 3۔ قیامت کے دن ظالم سر اٹھائے دوڑ رہے ہوں گے۔ 4۔ قیامت کے دن کوئی ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکے گا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن مجرم بدحواس ہوں گے : 1۔ قیامت کے دن مجرم سر اٹھاۓ بدحواسی کے عالم میں دوڑ رہے ہوں گے۔ (ابراہیم :43) 2۔ قیامت کے دن آپ مجرموں کے چہروں کو سیاہ دیکھیں گے۔ (الزمر :60) 3۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی اور انہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس :27) 4۔ اس دن مجرموں کو ایک دوسرے کے ساتھ جکڑا ہوا دیکھیں گے اور آگ ان کے چہروں پر چھائی ہوگی۔ (ابراہیم : 49۔50) 5۔ قیامت کے دن لوگ اس طرح بدحواس ہوں گے جیسے شراب سے مدہوش ہوں۔ (الحج :2)