سورة ابراھیم - آیت 40

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

خدایا ! مجھے توفیق دے کہ میں نماز قائم کروں اور میری نسل کو بھی اس کی توفیق ملے، پروردگار ! میری یہ دعا تیرے حضور قبول ہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : آدمی ہر حال اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت کا محتاج ہے اس کے لیے اسے وہی ذرائع اور طریقے اختیار کرنے چاہییں جن کا اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے حکم فرمایا ہے۔ آدمی جن ذرائع سے اللہ کی مدد کا مستحق اور اس کی رحمت کا سزاوار ہوتا ہے ان میں مؤثر ترین ذریعہ نماز کی ادائیگی ہے۔ مؤذن چوبیس گھنٹوں میں ایک مقررہ وقفے کے بعد پانچ مرتبہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کا نام لے کر مسلمانوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کی نوید سناتے ہوئے دعوت دیتا ہے کہ اے کلمہ طیبہ کا اقرار اور اظہار کرنے والو! آؤ تمہاری کامیابی اللہ کی عبادت‘ نبی اکرم (ﷺ) کی اطاعت اور جماعت بندی میں ہے۔ تابع فرمان مسلمان ہر چیز چھوڑ کر اللہ کے گھر حاضر ہو کر عملاً ثابت کرتے ہیں کہ ہم خدا کی جماعت ہیں جو ہر وقت اس کے حکم کے پا بند اور اس کی اطاعت پر کاربند ہیں۔ پھر پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملا کر مسلمان غیر مسلموں کے سامنے ثابت کرتے ہیں کہ مسلم معاشرہ میں امیر، غریب، آقا اور غلام میں کوئی فرق نہیں۔ کاش امت نماز کی حقیقت کو سمجھ جائے تاکہ ان میں زندگی کی انقلابی روح پیدا ہوجائے۔ سیدنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے جگر گوشہ اور رفیقہ حیات کو عرب کے صحرا و بیابان میں چھوڑ کر دعائیں کرتے ہوئے الوداع ہوئے : ان دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی ” الٰہی مجھے اور میری اولاد کو نمازی بنا“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بارگاہِ الٰہی سے اس طرح التجا کرتے۔ اے ہمارے پروردگار مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابندبنا۔ دعاؤں کا نتیجہ : ﴿وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِسْمٰعِیْلَ اِنّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ کَانَ رَسُوْلاً نَّبِیّاً وَکَانَ یَاْمُرُاَھْلَہٗ بالصَّلوٰۃِ وَالزَّکَاۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیّاً﴾[ مریم : 54۔55] ” اے نبی! قرآن مجید سے حضرت اسمٰعیل کا تذکرہ ضرور کرو کیونکہ وہ اللہ کا برگزیدہ نبی وعدے کا سچا اور نماز وزکوٰۃ کا اہل خانہ کو حکم دینے والا تھا۔“ اولاد کو نماز کا حکم دینا چاہیے : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مُرُوٓا أَوْلاَدَکُمْ بالصَّلاَۃِ وَہُمْ أَبْنَآءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَآءُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ ) [ رواہ ابو داود : باب مَتٰی یُؤْمَرُ الْغُلاَمُ بالصَّلاَۃِ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے ان پر سختی کرو اور ان کے بستر الگ کر دو۔“ نماز کی فرضیت اور فضیلت : (عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ () یَقُوْلُ إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلاَۃِ) [ رواہ مسلم : باب بَیَانِ إِطْلاَقِ اسْمِ الْکُفْرِ عَلَی مَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ ] ” حضرت ابو سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے جا بر (رض) سے سنا وہ نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مسلمان اور کفر کے درمیان نماز کا فرق ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ سے نماز کی پابندی کی توفیق مانگنی چاہیے۔ 2۔ اللہ ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ 3۔ کوشش کے ساتھ والدین کو دعا بھی کرنی چاہیے کہ ان کی اولاد نمازی بن جائے۔ تفسیر بالقرآن : نیک اولاد کے لیے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعائیں : 1۔ اے میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا۔ (ابراہیم :40) 2۔ حضرت زکریانے اپنے پروردگار کو پکارا اور عرض کی کہ الٰہی مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ (آل عمران :38) 3۔ میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ابراہیم نے کہا میری اولاد میں سے بھی بنائیں۔ (البقرۃ:124) 4۔ اے ہمارے پروردگار! ہماری اولاد میں ایک جماعت اپنی مطیع بنا۔ (البقرۃ:138)