سورة ابراھیم - آیت 18

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا تو ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے راکھ کا ڈھیر کہ آندھی کے دن ہوا لے اڑے، جو کچھ انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ سے) کمایا ہے اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہ آئے گا۔ یہی گمراہی کی حالت ہے جو بڑی ہی گہری گمراہی ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : ظالموں کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہوگا۔ مشرک اور کافر دنیا میں جو نیک عمل کرتے رہے کفر و شرک کی وجہ سے ان کی حیثیت راکھ کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ کفر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات اور صفات کا انکار کرنا۔ یہ ایسا گناہ اور جرم ہے کہ اگر اس کا مرتکب شخص کوئی اور گناہ نہ بھی کرے تو کفر و شرک سے بڑا گناہ اور گمراہی کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرنے والے کچھ لوگ انسانی اقدار کے اعتبار سے شریف النفس اور دنیا میں لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے عظیم کار نامے سرانجام دیتے ہیں۔ خلق خدا ان کے کار ناموں سے صدیوں تک فائدہ اٹھاتی ہے۔ دنیوی اعتبار سے یہ بے مثال اور بھلے کام ہوتے ہیں چونکہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے منکر ہوتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے اس لیے عدل اور عقل وانصاف کا تقاضا ہے کہ انہیں قیامت کے دن کچھ صلہ نہ دیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عادل اور مہربان ہے۔ اس لیے آخرت کے منکروں کو دنیا میں اچھی شہرت، وسائل واسباب کی فراوانی اور کئی مشکلات سے بچاؤ کی صورت میں صلہ دیتا ہے۔ کیونکہ یہ کفر جیسے سنگین گناہ اور جرم میں ملوث تھے۔ اس لیے آخرت کے حوالے سے ان کے اچھے اعمال کی حیثیت راکھ کے ڈھیر کی مانند ہوگی۔ جس طرح آگ کسی چیز کے وجود کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے اور اس راکھ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بے شک وہ کتنا بڑا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو۔ یہی حالت قیامت کے دن کفار کے اچھے اعمال اور کار ناموں کی ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ () قَالَ إِنَّہٗ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ السَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وْا ﴿فَلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا ﴾)[ رواہ البخاری کتاب التفسیر، باب قولہ ﴿ أُولَئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ﴾] ” حضرت ابو ھریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن ایک موٹا تازہ آدمی لایا جائے گا۔ اس کا وزن اللہ کے نزدیک مچھرکے پر کے برابر بھی نہ ہوگا اور آپ نے فرمایا پڑھو ﴿فَلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا ﴾” ہم قیامت کے دن ان کے لیے ترازو قائم نہیں کریں گے۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ () ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْٓئَتِی یَوْمَ الدِّیْنِ )[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے کہا اے اللہ کے رسول ! ابن جدعان زمانۂ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا۔ کیا یہ چیز اسے نفع دے گی ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا یہ کام اسے نفع نہیں دیں گے کیونکہ کبھی اس نے یہ نہیں کہا اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔“ مسائل: 1۔ کفار کے اعمال غارت جائیں گے۔ 2۔ کفار کو کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: کفار اور مشرکین کے اعمال غارت کردیے جائیں گے : 1۔ کفار کے اعمال اس طرح غارت ہوجائیں گے جیسے تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے (ابراہیم :18) 2۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال تباہ کردیے گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبۃ:17) 3۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کے اعمال دنیا و آخرت میں تباہ وبرباد کردیے گئے۔ (التوبۃ:69) 4۔ جو لوگ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ان کے اعمال ضائع ہوں گے۔ (الکھف :105) 5۔ جو لوگ ہماری آیات کی اور آخرت میں ملاقات کی تکذیب کرتے ہیں ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف :147) 6۔ ایمان نہ لانے والے کے اعمال غارت جائیں گے اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ (المائدۃ :5)