الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
الر۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تجھ پر اتاری ہے تاکہ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم کی تعمیل میں تاریکیوں سے نکالے اور روشنی میں لائے کہ غالب اور ستودہ خدا کی راہ ہے۔
فہم القرآن : (آیت 1 سے 2) ربط کلام : ﴿ الٓرٰ﴾ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ان کا حقیقی معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ بعض مفسرین کے استدلال کے مطابق یہ دنیا بھر کے لوگوں کو چیلنج ہے کہ قرآن مجید انہی حروف پر مشتمل ہے اگر تم قرآن مجید کو منجانب اللہ تسلیم نہیں کرتے تو پھر اس جیسا قرآن مجید بنا کر پیش کرو۔ جس کا قیامت تک، کوئی فرد، جماعت اور کوئی حکومت جواب نہیں دے سکتی۔ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے رسول معظم (ﷺ) کی ذات اقدس پر نازل فرمایا ہے۔ تاکہ لوگوں کو کفر وشرک، بدعت ورسومات اور ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت اور علم کی طرف لانے کی کوشش فرمائیں۔ اس رب کے راستے کی طرف لائیں۔ جو ہر اعتبار سے غالب اور تعریف کے لائق ہے۔ اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے۔ اس کی ذات اور کتاب کا انکار کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ سورۃ ابراہیم کی پہلی آیت میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ کسی شخص کا بتلایا ہوا یا نبی کا اپنی طرف سے بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ ہی نے اس قرآن کو محمد عربی (ﷺ) کی ذات اقدس پر نازل فرمایا ہے۔ 2۔ آپ (ﷺ) پر قرآن مجید نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق لوگوں کو کفر وشرک، بدعت رسومات اور جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کی طرف لائیں یہی راستہ تابناک اور صراط مستقیم ہے۔ 3۔ لوگوں کے رب کا بتلایا ہوا یہ روشن راستہ ہے جس سے مرادیہ ہے کہ جو شخص اپنے رب کی ملاقات اور اس کی خوشنودی کا طالب ہے اسے قرآن مجید کا بتلایا ہوا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ العزیز اور الحمید کی صفات کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو غالب اور محمود سمجھ کر اس کے راستہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی غلبہ اور تعریف کے لائق بنادے گا۔ روشن اور تابناک راستہ : (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرٍو السَّلَمِیِّ أَنَّہٗ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃَ یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّ ہَذِہِ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَآءِ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا لاَ یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْٓ إِلاَّ ہَالِکٌ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ بالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الأَنِفِ حَیْثُمَا قِیْدَ انْقَادَ ) [ رواہ ابن ماجۃ: فی المقدمۃ : باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْن ] ” حضرت عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی کہتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے وعظ فرمایا۔ ایساوعظ تھا کہ ہمارے آنسو جاری ہوگئے اور دل ڈر گئے۔ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! ایسا وعظ تو رخصت ہونے والے کا ہوتا ہے۔ آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا بے شک میں نے تمہیں ایسی چیز پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کی رات دن کی مانند ہے۔ اس کو چھوڑنے والا ہلاک ہوجائے گا۔ تم میں سے جو کوئی زندہ رہا تو وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا جسے تم پہچان لو۔ تم اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا۔ امیر کی اطاعت کو لازم جاننا۔ اگرچہ وہ حبشی غلام ہی ہو۔ یقیناً مومن ایک ایسے اونٹ کی مانند ہے جس کی ناک میں نکیل ڈالی گئی ہو۔ اسے جہاں باندھا جائے وہ بندھ جاتا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ یَتَھَجَّدُ قَالَ (اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِن وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مٰلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِن وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآءُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَآ اَخَّرْتُ وَمَآ اَسْرَرْتُ وَمَآ اَعْلَنْتُ وَمَآ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَآاِلٰہَ غَیْرُکَ) [ رواہ البخاری : باب التَّہَجُّدِ باللَّیْلِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) رات کے وقت جب تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تیری ہی حمدوستائش‘ تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو قائم رکھنے والاہے‘ تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیری وجہ سے ہی زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز روشن ہے‘ تیرے لیے ہی تعریف ہے اور تو ہی زمین و آسمان اور ان میں ہر چیز کا مالک ہے‘ تیرے ہی لیے حمدوثنا ہے تو ہی حق ہے تیرے وعدے سچ ہیں۔ تجھ سے ملاقات یقینی ہے۔ تیرا فرمان سچا ہے۔ جنت‘ دوزخ‘ انبیاء‘ محمد‘ قیامت یہ سب سچ اور حق ہیں۔ الٰہی میں تیرا ہی فرمانبردار اور تجھ پر ایمان رکھتاہوں‘ تیری ذات پر میرا بھروسہ ہے۔ تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں‘ تیری مدد سے ہی لوگوں سے لڑتاہوں۔ میں سب کچھ تیرے سپرد کرتاہوں۔ پس میرے اگلے پچھلے‘ پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما۔ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیری ذات ہی اول وآخر ہے۔ تو ہی الٰہ برحق ہے اور تیرے سوا کوئی معبود ومسجود نہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (ﷺ) پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ 2۔ قرآن مجید اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا ذریعہ ہے۔ 3۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ 4۔ کافروں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن : نور کیا ہے : 1۔ اللہ نور ہے۔ (النور :35) 2۔ قرآن مجید نور ہے۔ (المائدۃ:15) 3۔ تورات نور ہے۔ ( المائدۃ:44) 4۔ انجیل میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ:46) 5۔ نبی اکرم (ﷺ) لوگوں کو نور کی طرف دعوت دیتے تھے۔ (الطلاق :11) 6۔ اللہ لوگوں کو نور کی طرف بلاتا ہے۔ (الاحزاب :43) 7۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) نور کی طرف بلاتے تھے۔ (ابراہیم :5)